پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ایک نوجوان شعیب امین کا پیغام موصول ہوا کہ ملک میں آج کل مفلسی کے حالات چل رہے ہیں جس کی وجہ سے خودکشی کے واقعات رُونما ہو رہے ہیں، اس پر دل پریشان رہتا ہے، کچھ تحریر کریں۔
عزیزم شعیب امین! خودکشی کی وجہ حالات کی مفلسی نہیں، بلکہ خیالات کی مفلسی ہے۔ انسان کسی ”وجہ“ سے اُمّیدکی روشنی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے، وہ یہ فیصلہ سنا دیتا ہے کہ اس کے بعد اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ ڈوبنے والا سورج اب کبھی نہیں اُبھرے گا۔ وہ اِس دنیائے ممکنات کو ناممکنات کی دنیا سمجھ لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے زندگی میں اب کبھی کوئی خوش خبری نہیں مل سکے گی۔ وہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی فیصلہ کر لیتا ہے۔ وہ مالک و مختار ذات کی بے پناہ قدرت و حکمت کا یکسر منکر سا ہو جاتا ہے، اس لیے وہ ”عافیت“ اسی میں جانتا ہے کہ اب زندگی ختم کر لینی چاہیے۔
جس نے مفلسی کی وجہ سے خودکشی، اُس نے اپنی جان کی قدر و قیمت بہت کم متعین کی …… بہت ہی کم۔ وہ زندہ رہنے کے قابل ہی کہاں تھا، جس کے نزدیک دو روٹیاں نہ ملیں تو زندگی ایسی قیمتی متاع کو دریا برد کر دیا جائے۔ انسان کے ساتھ پیٹ بھی ہے، لیکن انسان پیٹ سے علیحدہ بھی ہے۔
جس نے کسی کی بے وفائی پر خود کشی کا سوچا، اس نے مجاز کو حقیقت پر محمول کیا۔ وہ روح کی دنیا میں داخل نہ ہو سکا۔ اس کی نظر اجسام اور ان پر ملکیت کی حد تک محدود رہی۔ محبت ایک عطیہ ہے، جو محدود کو لامحدود سے آشنا کرانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس عطا کی بے حد ناشکری ہے اگر انسان، جس کے اندر ایک لامحدود منظر موجود ہے، اسے محض جسم کی حد تک محدود کر لے۔
عجب بات ہے، ایمان ہو یا محبت اگر فی الواقع عطا ہو جائے تو زمینی حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوتی۔ محبوب کا ستم ہو یا جابر حکمران کا ظلم، کسی نے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر کبھی محبت ترک کی ہے، نہ ایمان! اہلِ ایمان پر ہونے والے ظلم و ستم نے ان کے جذبہ ایمان کو بیدار تو کیا ہے، ختم نہیں کیا۔ تاریخ بھی گواہ ہے اور حال بھی اِس اَمر پر شاہد ہے۔ فرات کا کنارہ ہو، یا چودہ سو برس کے فاصلے پر غزہ کا کوئی مغربی کنارہ ہو، آگ اور آہن کی بارش نے اہلِ ایمان کے ایمان کو فزوں تر ہی کیا ہے۔ اہلِ ظاہر، طاقت پر بھروسہ کرنے والے، اَسباب و علل کی دنیا کو حتمی سمجھنے والے، اس ایمان اور محبت کی حقیقت سے حجاب میں ہیں۔ محبت اور ایمان دونوں ہی ایک معجزے کی طرح ہیں، عالمِ اسباب میں اِن کی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔
اگر دیکھا جائے تو ایمان اپنی اصل میں محبت ٹھہرتا ہے، کیونکہ صاحبِ ایمان وہی ہے جس کے نزدیک رسولؐ کی محبت اس کے مال، اس کی اولاد، اس کے ماں باپ اور خود اس کی جان سے بھی زیادہ ہو۔
انسان ایمان کے لیے غربت و مصائب میں رہنا قبول کر لیتا ہے لیکن ایمان سے دست بردار ہونا اسے قبول نہیں ہوتا۔ قیس صحرائے نجد کی صعوبت برداشت کر لیتا ہے لیکن لقائے لیلیٰ کے خیال سے تائب نہیں ہوتا۔
جب یہ کہا گیا کہ ممکن ہے مفلسی تمہیں کفر تک پہنچا دے …… تو یہاں مدعائے کلام سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں مدعا یہ نہیں کہ مفلسی ایمان سے نکل کر کفر میں داخل ہونے کا کوئی جواز ہے، بلکہ یہاں اہلِ ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھوک اور افلاس کے ڈر سے کفر اور نظامِ کفر قبول کر لو۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں ایمان پر پہرہ دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ کمزور ایمان کمزور معیشت کے ہاتھوں ڈانواں ڈول ہو سکتا ہے۔ مضبوط معیشت مضبوط ایمان کی ضمانت نہیں۔ شعب ِ ابی طالب میں محصور مومن ایمان کے مضبوط قلعے میں تھے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر درج ہے: ”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔“ گویا مفلسی سے ڈرنا شیطان کے جھانسے میں آنے کے مترادف ہے۔ احادیث میں مروی ہے کہ اللہ کریم نے جب اپنے حبیب پاکؐ سے دریافت کیا کہ ہم آپ کو بادشاہ نبی بنائیں یا فقیر نبیؐ تو رسول کریمؐ نے فرمایا: اے اللہ مجھے مسکینوں میں زندہ رکھ، مسکینوں میں اٹھا، اور بروزِ حشر بھی مسکینوں میں رکھ۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: اے اللہ مجھے ایک دن سیری دے اور ایک دن بھوکا رکھ!
وہ ایمان جو حالات کا محتاج ہو، ایمان نہیں کوئی سیاسی و سماجی ضرورت ہوتا ہے۔ ایمان حالات و اقعات سے بے نیاز ہے۔ بے نیاز ذات پر ایمان لانے والے، ایمان کے باب میں زمینی حقائق سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
انسان اس کائنات میں پیدا ضرور ہوا ہے لیکن وہ اس کائنات کی پروڈکٹ نہیں۔ یہ کون و مکان اس کی قیام گاہ ہے۔ مکین اپنے مکان سے جدا پہچان رکھتا ہے۔ جس طرح کوئی مجھے اپنے مکان کی کوئی اینٹ سمجھ لے تو میری توہین ہو جاتی ہے، اس طرح انسان کو کائناتی نظام میں مادّے کا حصہ سمجھ لینا اس کی تکریم کے منافی ہے۔ یہ کائناتِ ہست و بُود اِس کی ایک سیرگاہ ہے۔ اس نے یہاں مشاہدات کرنا ہیں، مشاہدات بیان کرنا ہیں، اس نے یہاں خیال وصول کرنا ہے، اس خیال کی تزئین و آرائش کرنی ہے اور پھر اس خیال کو خیال کے کسی قافلے کے سپرد کرنے کے بعد یہاں سے رخصت ہو جانا ہے۔ وہ جہاں سے آیا تھا، اس نے وہیں واپس جانا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
اس کے خیال کے راستے میں کوئی چیز مانع نہیں۔ وہ کثیف ماحول میں رہ کر لطیف خیال کا حامل ہو سکتا ہے۔ وہ لطیف تر معبدوں میں معتکف ہونے کے بعد بھی کسی کثیف خیال کے ساتھ باہر آ سکتا ہے۔ انسان کا خیال اس کے ماحول کو متاثر کرتا ہے، اس کے ماحول میں یہ دم نہیں کہ اسے اس کے خیال سے محروم کر سکے۔
اصل غربت خیال کی غربت ہے، اور اصل اَمیری خیال کی اَمیر ی ہے۔ دنیا میں اب تک جتنے بھی صاحبانِ خیال گذرے ہیں، وہ امیری غریبی سے ماورا تھے۔ لیو ٹالسٹائی ایک نواب کے گھر پیدا ہوتا ہے، کہتے ہیں وہ جس محل میں پیدا ہوا اس کے کمروں کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی۔ اس نے غربت کا راستہ چنا، عظمت کا راستہ چنا۔ وہ ماسکو کے ایک نواحی قصبے کے پلیٹ فارم پر اس شانت حالت میں جان دیتا ہے کہ اُس کے اِرد گرد اُس کی چند کتابیں اور چند ایک شاگرد موجود ہیں۔ مفلسی اگر خیال کو مغلوب کر دینے والی چیز ہوتی تو غا لبؒ صاحبِ دیوان نہ ہوتے۔ اقبالؒ اپنے فرزندِ ارجمند کو یہ کہتے ہوئے دکھائی نہ دیتے کہ:
میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
فرزندِ اقبال امیری میں وہ نام پیدا نہ کر سکا جو اقبال فقیری میں کر گیا۔
مفلسی اگر خود کشی کا معقول جواز ہوتی تو سکینڈے نیوین ممالک جو آزادی اور خوش حالی سے مالا مال ہیں، وہاں خود کشی کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ نہ ہوتی۔ خود کشی دراصل اپنے خیال اور حسنِ خیال کی خود کشی ہے۔ انا، غرور، تکبر، ضد اور لالچ سے انسان دور رہے تو شدید غربت و افلاس میں بھی خود کشی سے دور رہے گا۔ خود کشی کرنے والا بنیادی طور پر ایک قاتل شخص ہوتا ہے۔ آج کل قاتلوں سے ہمدردی جتلانا ایک فیشن بن چکا ہے۔ خودکشی کرنے والا اگر اپنی جان نہ لے سکے تو دوسروں کی جان لے گا۔ اشتعال اگر باہر کی طرف عود آئے تو قاتل بنا دیتا ہے، وہی اشتعال اگر اندر گھس جائے تو خود کشی پر مجبور کر دیتا ہے۔ خود کشی کرنے والا بنیادی طور پر ایک ظالم شخص ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں راہِ عدل پر چلائے اور عدل پر قائم رہنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں