• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہماری تاریک تاریخ جو لکھی نہ گئی۔۔ناصر خان ناصر

ہماری تاریک تاریخ جو لکھی نہ گئی۔۔ناصر خان ناصر

سن اکتر کی جنگ میں وہ سبز پوش بابے کہیں نظر نہ آئے جو پینسٹھ کی جنگ میں بھارت کی طرف سے پھینکے بم کیچ کر کے انھیں ناکارہ کر کے ندی نالوں میں پھینک دیتے تھے۔
میریا ڈھول سپاہیا گا کر عام سپاہیوں کو جذبہ شہادت سے معمور کرنے والی ملکہ ترنم نور جہاں صاحبہ بھی “میرا ماہی چھیل چھبیلا، کرنیل جی، جرنیل نی” گانے کے بعد سچ مچ جرنل یحیی خان صاحب کی آغوش گرمانے میں مشغول تھیں۔

نئے ملی ترانے گانے والی دبلی پتلی نازک سی شہناز بیگم بے حد خوبصورت آواز کی مالک تھیں۔ انھوں نے سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے اور دیگر کئی  ترانے گا کر مقبولیت حاصل  کی تھی۔ کئی  سرکاری و نجی تقاریب میں انھوں نے محترم بھٹو صاحب کے روبرو سپنے رسیلے نغمات پیش فرمائے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے فورا بعد وہ بھی اپنا بستر بوریا گول کر کے واپس تشریف لے گئیں۔
شروع میں ان کے متعلق بے پناہ افواہیں میڈیا میں گردش کرتی رہی تھیں۔
پہلی افواہ تو یہ تھی کہ انھوں نے بھٹو صاحب کے سامنے گا کر اپنی جان بخشی اور باحفاظت بنگلہ دیش روانہ ہو جانے کی اجازت طلب کی تھی اور انھیں خصوصی پروٹوکول کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔
پھر کچھ رسالوں میں یہ چھپا کہ شہناز بیگم دراصل اپنے مکتی باہنی میں شامل بھائی  کو جسے پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا، چھڑوانے کے لیے ہی یہاں تشریف لائی  تھیں اور اب اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئی  ہیں۔
پھر یہ افواہ اڑی کہ انھیں ڈھاکہ میں اترتے ہی مکتی باہنی نے قتل کر دیا ہے۔ شام کے اخباروں میں یہ خبر ہم نے بھی پڑھی تو بہت افسوس ہوا۔
ان دنوں نہ تو انٹر نیٹ تھا، نہ سیل فون عام ہوئے تھے۔ خبریں صرف ریڈیو اخباروں اور افواہوں کے ذریعے ہی پھیلا کرتی تھیں۔

بدقسمتی سے پاکستان وزارت اطلاعات و نشریات ہمیشہ پیٹ بھر بھر کر سفید جھوٹ ہی بولتی رہی۔ ریڈیو ٹی اور اخباروں پر سنسر کی گہری پابندیاں عائد تھیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے وقت سفید جھوٹ کے اتنے پلندے گھڑے گئے کہ سقوط ڈھاکہ کی خبر تک پاکستانیوں کو یہی باور کروایا گیا تھا کہ پاکستانی افواج وہاں جیت رہی ہیں۔ مکتی باہنی کا مکمل صفایا کر دیا گیا ہے۔ انہی دنوں میں ملک بھر میں کرش انڈیا کے نام سے چند نقشے جگہ جگہ  پھیلائے گئے، جن کے مطابق پاکستانی افواج نے دہلی کشمیر راہداری سمیت مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان موجود بھارتی علاقوں کو فتح کر کے بھارت کو دو لخت کر دینا تھا۔

بد قسمتی سے جب حقیقتوں سے پردہ اٹھا تو ہمارا اپنا ہی ملک دو لخت تھا اور ہماری بہادر افواج نے پلٹن میدان میں اپنی پتلونیں اتار کر ہتھیار پھینک دیے تھے۔
سقوط ڈھاکہ کی سب سے پہلی خبر بی بی سی اور وائس آف امریکہ سے نشر ہوئی  تو پاکستانی اخباروں نے پہلے پہل اسے جھوٹ اور پراپیگنڈا قرار دیا۔ البتہ دوسرے دن صرف مختصر بیان میں یہ کہا گیا کہ پلٹن میدان میں بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان ایک سمجھوتے پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔ ہتھیار پھینک کر شرمناک شکست تسلیم کرنے کی بات پھر بھی مکمل طور پر چھپا لی گئی ۔

بھارت نے تمام پاکستانی فوجی قیدیوں کو بنگلہ دیش سے اپنے ملک میں منتقل کر دیا اور پھر اپنی شرائط پر شملہ معاہدہ پر ناک رگڑوا کر دستخط کروائے گئے۔

اس سے قبل پاکستانی ادیبوں، شاعروں، گلوکاراؤں، فلمی اداکاروں وغیرہ نے بھارتی ادیبوں شاعروں گلوکاروں اور اداکاروں سے امن، صلح صفائی  کے واسطے دے دے کر قیدیوں کو چھڑوانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی اپیلیں شروع کر دیں۔

ہمارے ایک بہت بڑے ادیب و شاعر نے لتا جی کو لکھے خط میں اپنے ایک آنکھوں دیکھے واقعے کا ذکر بھی کیا، جب لتا جی نے اپنے کتے سے بدسلوکی کرنے والے ایک ملازم کو ان سب حاضرین کی موجودگی میں کس کر تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس رحم دلی اور ترس کھانے کا واسطہ دے کر فوجی قیدی چھڑوانے کے لیے محترمہ اندرا گاندھی صاحبہ سے گزارش کرنے کی اپیل کی گئی  تھی۔ ایسی اپیلوں سے پاکستانی اخبارات روزانہ بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ پھر ریڈیو سے قیدیوں کو پیغامات بھجوانے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔

پاکستان سے جرنیلوں، کرنیلوں کی بیگمات کا ایک لشکر وفد بنا کر بھارت بھجوایا گیا۔ اس وفد میں پنڈی میں ہمارے نیکسٹ ڈور پڑوسی کرنل اختر صاحب کی بیگم زاہدہ اختر صاحبہ بھی شامل تھیں۔ محترمہ نیلوفر بختیار صاحبہ کی لحیم شحیم چھ فٹ سے زائد لمبی چوڑی والدہ محترمہ اور دیگر خواتین کی سربراہی میں یہ وفد بھی ناکام لوٹا تھا۔ ان کے والد برگیڈیر بختیار صاحب بھی جنگ میں گرفتار ہو گئے تھے۔

محترمہ نیلوفر بختیار صاحبہ کو ہم اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ وقار النسا کالج پنڈی میں پڑھتی تھیں۔ ہمارے گورنمٹ ڈگری کالج اصغر مال میں وہ سالانہ اردو اور انگریزی ڈیبیٹ دونوں کی دونوں ہی جیت گئی  تھیں۔ انھوں نے پھر ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل پنڈی کی مینجر کی جاب سے شروع ہو کر صدر پاکستان کی مشیر خاص تک ترقی کی۔
ایک بار یہ ساری فیملی ہمارے غریب خانے پر بھی وارد و تشریف فرما ہوئی  تھی۔ ان کی ہمارے پڑوس میں  آباد کرنل اختر صاحب کی فیملی سے گہری پکی دوستی تھی۔
محترمہ نور جہاں صاحبہ، مہدی حسن صاحب اور دیگر پاکستانی گلوکاروں کے لتا منگیشتر صاحبہ کے نام خط اور اپیلیں اخبارات میں چھپتی رہتی تھیں۔
محترم احمد ندیم قاسمی صاحب، کشور ناہید صاحبہ اور دیگر اکابرین ادب نے بھارت کے ادیبوں شاعروں کے نام اپیلیں نشر کرائیں۔
محترمہ طاہرہ سید صاحبہ نے اگر ہو جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے، گا کر پس مژدہ قوم میں بیداری کی روح پھونکنے کی کاوش کی۔

اس جنگ میں غیروں کی مدد سے خود اپنے ہاتھوں ہمارا ملک دو لخت کر دیا گیا تھا۔ محترمہ اندرا گاندھی صاحبہ نے اس جنگ میں اپنی فتح کو مسلمانوں کے ہزار سالہ تسلط کا بدلہ قرار دیا اور فرمایا کہ دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔
پاکستان میں کسی نے بھی اس عبرت ناک تاریخی شکست کا جواز یا وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔

ہاں! صرف ایک نام نہاد حمودالرحمان کمیشن بٹھایا ضرور گیا مگر اس کمیشن کی لولی لنگڑی رپورٹ بھی کئی  سال گزرنے کے بعد آج تک مجلہ خاص و عام نہیں کی گئی ۔
ان تحقیقات کو بھی حسب عادت دبا دفنا کر منوں مٹی ڈال کر خاموشی اختیار کر لی گئی ۔
پاکستان میں آج تک قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کی زندگی کے آخری  ایام میں ان سے کی گئی  غیر معمولی بے جواز بدسلوکی، محترم لیاقت علی خان صاحب کے بے رحمانہ قتل، محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کی عجیب و غریب حالات میں نہایت پُرسرار وفات سمیت دیگر کئی  معاملات ابھی تک گہرے گھپ اندھیروں میں چھپے پڑے ہیں۔

اس سارے قصے میں ہمارے ادیبوں شاعروں تک نے اپنا کوئی  مثبت کردار سِرے سے ادا نہ کیا۔ میجر سالک صاحب کی یکطرفہ سپاٹ کہانی “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” کے بعد گنتی کی چند ایک معمولی غیر معروف کتابیں ہی اس موضوع پر لکھی گئیں۔
کسی طالب علم نے کبھی اس پر پی ایچ ڈی کے تھیسز نہ لکھے۔ تحقیقات تفصیلات کا رواج تو اپنے ہاں سِرے سے ہی کبھی نہیں پنپ سکا تھا۔ ہماری فلمی دنیا کی لٹیا تو شروع سے ہی عریانی و لچر پن نے ڈبو رکھی تھی، کسی کو اس موضوع پر فلم تو درکنار، ڈاکیومنڑی یا ٹیلی ڈرامہ تک بنانے کی بات بھی نہیں سوجھی۔

قید سے رہائی  پانے والے فوجیوں سے کوئی  پوچھ گچھ ہوئی  نہ ان پر کوئی  مقدمات چلے۔ جنرل نیازی صاحب اور جنرل ٹکا خان صاحب باعزت ریٹائرڈ ہوئے۔ محترم یحیی خان صاحب نے بھی خاموش رہ کر اپنے آخری  ایام ہنسی خوشی کاٹ لیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری جنگ اور ہماری عبرت ناک شکست پر پاکستان سے باہر البتہ کئی  خاص الخاص کتابیں لکھی گئیں، جن کو پاکستان بھر میں شاید کسی نے نہ کبھی پڑھا نہ دیکھا۔
ہم لوگ مشرقی پاکستان کو فوری طور پر بھول بھال کر صرف مغربی پاکستان کو ہی پاکستان بنانے میں جُت گئے۔ چند ہی برسوں بعد اسے مزید نیا پاکستان بنا دیا گیا اور اب ہمارے منہ میں خاک، نصیب دشمناں نئے سے بھی نیا پاکستان بنانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply