دیوتاآرزونہیں کرتے/ناصر عباس نیّر

’’دیوتاآرزونہیں کرتے،آرزوکرنےوالی مخلوق ہی تخلیق کرتے ہیں ۔‘‘
جدید نظم کے تنقیدی کلامیے میں بعض کھانچے اور مغالطے تھے۔انھیں آج ،یعنی مابعد جدیدعہد میں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
پہلا مغالطہ یہ تھا کہ جدید شاعر جب دیوتاؤں سے خالی دنیا کا تصور کرتا ہے ،تو وہ مرکز کی نفی کرتا ہے۔اصل یہ ہے کہ جدید شاعر’مرکز ‘ کی نفی نہیں کرتاتھا ،بلکہ’ مابعد الطبیعیاتی مرکز‘ کی نفی کرتا تھا۔
وہ مابعد الطبیعیاتی مرکز کی جگہ خود کو مرکزی مقام تفویض کرتا تھا۔لہٰذا یہ مرکز کی نفی نہیں ، مرکز کی تبدیلی تھی۔مرکز کی تبدیلی سے اس نے گمان کیا کہ وہ دیوتا بن گیا ہے ؛ اپنی بشری سطح سے دست کش اور بلند ہو گیا ہے ۔لیکن یہ ایک مغالطہ تھا۔
دیوتا بننے کے لیے ،اپنی انسانی خصوصیات کی نفیِ کامل بھی درکار تھی۔ دیوتا بننے کی آرزو ہی اس کے دیوتا بننے میں رکاوٹ تھی۔ آرزو ،اس کی انسانی نہاد برقرار رکھتی تھی۔دیوتا آرزو نہیں کرتے ،آرزو کرنے والی مخلوق تخلیق کرتے ہیں۔میر نے کیا زبردست بات کہی تھی!
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کردیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
بایں ہمہ نشان خاطر رہے کہ دیوتا بننے کی آرزو ،خودی کے اس نشے سے مختلف تھی ،جس کے بارے میں یگانہ نے ایک عمدہ شعر کہا ہے :خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا؍/خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا۔
خودی یعنی خدائی برتری کا نشہ جلد ہرن ہوجاتا ہے ۔جدید شاعر کے یہاں خود ی کا تکبر نہیں، دیوتائی خصوصیات یعنی دیوتاؤں کی طرح تخلیق کرنے کا اعتماد تھا۔جدید شاعر مابعد الطبیعیاتی مرکز کی نفی سے ،خود کو کبریائی خصوصیات کا حامل تصور کرتا تھا ۔

جدید شاعر کے اس اعتماد میں بھی ایک رخنہ تھا۔کبریائی خصوصیا ت کا مطلب خدا کی طرح تخلیق کرنا تھا۔بادی النظر میں یہ ایک سحر انگیز تصور ہے کہ آدمی خدا کی طرح تخلیق کرسکتا ہے؛یہ سحر انگیز تصور اپنے اندر ایک نفسی قوت بھی رکھتا ہے ،اور اس قوت کی بدولت ہی جدید شاعر نے نئی ہیئتوں، نئی زبان ، نئے خیالات ، محسوسات کی نئی دنیا ایجاد کرنے کا بیڑہ اٹھایا،لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ خد ا کی مانند تخلیق کرنے کا ٹھیک ٹھیک مطلب کیا ہے؟۔۔۔۔۔
خدا ئی تخلیق کسی شے پر منحصر نہیں؛ نہ مواد پر ، نہ کسی مثال پر، نہ کسی مددگار پر؛خداکوئی بھی شے عدم سے وجود میں لاسکتاہے۔جدیدشاعری کے ڈسکورس میں یہ مفروضہ موجود تھا کہ شاعر ،خدا کی مانند اپنی تخلیق میں کسی پر انحصار نہیں رکھتا؛ نہ ماضی پر، نہ روایت پر، نہ کسی پیش رو پر،نہ دیگر متون پر، نہ لغت پر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جدید شاعر ان سب کے بغیر نہ صرف شاعری تخلیق کرسکتا ہے،بلکہ خدائی تخلیق کی مانند عظیم و بے مثل شاعری تخلیق کرسکتاہے۔ جدید شاعری میں قطعی نئی جمالیات وضع کرنے ، یکسر نئی ہیئت وجود میں لانے ،ایک مکمل طورپر نئی شعری زبان خلق کرنے (جس کے معانی خود اسی زبان میں مضمر ہوں)اور نامعلوم کو معلوم بنانے جیسے تصورات مذکورہ مفروضے کی دین ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان چیلنج اور سحر انگیزمفروضہ تھا۔تاہم اصل چیلنج ،قطعی نئی جمالیات وضع کرنا نہیں تھا، اصل چیلنج خد اکی مانند تنہا رہتے ہوئے نئی جمالیات وضع کرنا تھا۔گویا اپنی تنہائی کو خدائی یکتائی تک لے جانا تھا۔
(اپنی کتاب نظم کیسےپڑھیں‘’(مطبوعہ۲۰۲۸ء،سنگ میل)سےاقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply