خوف/سائیں سُچّا

جُون23، 1973
جھیل سلیٹی آئینے کے بھیس میں فضا میں اُڑتے پتنگوں کو ورغلا کر اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ پانی کی چادر کے بالکل نیچے متوقع مچھلیاں سبک رفتاری سے اُس چادر کو توڑتیں اور پتنگوں کو نِگل لیتیں۔
یہ جُون کی ایک خوبصورت اور پُر سکون شام تھی۔ مائیکل اور میں عموماً  شام کے اس پہر ،جب اُفق پر لگی آگ دھیرے دھیرے پہلے نارنگی، پھر گلابی ڈوپٹہ پہنے اپنی شدت گنوا کر سُرمیلی چادر اوڑھ لیتی تھی ،اس جھیل پر مچھیاں پکڑنے آتے تھے۔ اوکلبُوؔ سٹاکہولم ؔسے تقریباً  دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اور ہم سب دوست یہاں چھٹیاں منانے آتے تھے۔

اُس شام بھی سائیبوت ؔ اور میں مچھلیاں پکڑنے، مائیکلؔ تازہ پکڑی مچھلیوں کو کوئلوں کی آگ پر، نمک اور روزمرین لگا کر بھوننے، اور روبرتوؔ سبزیاں کاٹنے میں لگا ہُوا تھا۔ روبرتوؔ مائیکلؔ کی بیوی کا خالہ زاد بھائی تھا اور پچھلے ہفتے ہی ارجنٹیناؔ سے آیا تھا۔ جھیل کی سطح پر چند لہروں کا رقص اور دُور سے پرندوں کے گیت ایک عجب سماں بنا رہے تھے۔ اچانک سائیبوتؔ کے کانٹے کے اوپر کا سرخ کارک پانی میں غائب ہو گیا، اور وہ بولا، ” لگ گئی”، اور پانی میں ہلچل شروع ہو گئی۔ ہم سب بڑی توجہ سے مچھلی اور سائیبوت کے درمیان کشمکش دیکھ رہے تھے، سوائے روبرتوؔ کے جو گھبرایا ہُوا پیچھے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے مقابلے کے بعد سائیبوتؔ نے مچھلی کو کھینچ لیا۔ وہ تقریباً ایک سیر کی پرچ مچھلی تھی۔ سب نے خوشی کا اظہار کیا۔ پرچ مائیکلؔ تک پہنچادی گئی ۔آدھ گھنٹے کے اندر اندر ہم نے چار پانچ صحت مند قِسم کی مچھلیاں پکڑ لیں اور اب مائیکل کی باری تھی کہ وہ اپنا فن دِکھائے۔ سب نے بیئر کا نیا ڈبہ کھولا، “سکوول” کہا اور پیاس بجھنے لگی۔ پر جوں جوں اندھیرا بڑھا میں نے محسوس کیا کہ روبرتوؔ مزید پریشان نظر آنے لگا تھا۔ وہ بار بار پیچھے کی جانب جھاڑیوں کی جانب دیکھتا تھا۔ جب مجھ سے نہیں رہا گیا تو نے مائیکلؔ سے پوچھا کہ روبرتوؔ کو کیا الجھن تھی۔ مائیکل نے روبرتوؔ سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔
تم یہاں کیسے بیٹھ سکتے ہو؟
کیوں؟ میں نے پوچھا
اگر کوئی تمہیں پیچھے سے گولی مار دے تو!
گولی مار دے! کیوں کوئی گولی مارے گا؟
فوجیوں کو کیا کسی وجہ کی ضرورت ہوتی ہے؟
روبرتوؔ، یہ سویڈنؔ ہے، فوجیوں کا ارجنٹیناؔ نہیں کہ تمہیں کوئی گولی مار دے گا۔
پاگل فوجیوں کا کیا، وہ تو کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں!

دسمبر 31، 2011
کڑاکے کی سردی، زمین  پر تازہ گِری برف کی سفید چادر اور اُس رات چاندنی بھی اپنے جوبن پر تھی۔ اس مرتبہ ہم نیا سال اپنے گھر منا رہے تھے، اور بچوں نے اپنے چند دوستوں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ سویڈن میں نئے سال کی رات خوب رونق اور شورشرابے سے منائی جاتی ہے۔ مختلف قسم کے پکوان اور مشروب کے علاوہ ٹھیک بارہ  بجے رات کو آش بازی کے  کرتب  دکھائے جاتے ہیں۔ بچوں نے بھی اپنی جیب اور ہماری سخاوت کے مطابق کافی بارود اکٹھا کیا ہُوا تھا۔ لیکن اس ٹھا ٹُھو سے پہلے خوب موسیقی اور رقص کا دور چلا، آریفاؔ کا تعلق بوسنیاؔ سے تھا اور وہ تقریباً  پندرہ برس سے اپنے خاندان کے ساتھ سویڈنؔ میں رہ رہی تھی۔ ہماری بیٹی اُسے پرائمری سکول میں ملی تھی اور یہ اس کی خاص سہیلیوں میں شامل تھی۔ آریفاؔ بہت اچھا ناچتی تھی اور سب دوستوں میں مقبول بھی تھی۔ پونے بارہ بجے کے قریب موسیقی بند ہو گئی اور سب نے باہر کے کپڑے پہننے شروع کر دیے، کیونکہ اُس وقت خاصی سردی ہو چُکی تھی۔ اُس گہماگہمی میں مجھے اچانک آریفاؔ ایک طرف کھڑی دکھائی دی۔ اُس کے چہرے پر ہچکچاہٹ اور ہلکی سی زردی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔
کچھ نہیں، کچھ نہیں، اُس نے پریشان آنکھوں سے  مجھے دیکھا اور پھر بولی، میں باہر نہیں جانا چاہتی۔
کیوں نہیں؟ میرا سوال غیر مناسب لگ رہا تھا لیکن وہ میرے منہ سے پھسل گیا تھا۔
آریفاؔ نے کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکی، صرف میری بیٹی کی طرف دیکھتی رہی۔ اچانک میری بیٹی دوڑ کے میرے پاس آئی اور کہنے لگی،
پاپا، آریفاؔ باہر نہیں جائے گی۔
بِلاکسی تفصیل کے بیٹی کے لہجے نے سب کچھ بتا دیا تھا۔
تو ہم بھی آج باہر نہیں جائیں گے۔
میں نے فریدہ کو سمجھا دیا کہ تم سب کو باہر لے جاؤ، ہماری فکر نہ کرنا۔ جب سب چلے گئے تو آریفاؔ ، ثناؔ اور میں اندر کے کمرے میں بیٹھ گئے۔
مجھے بہت رنج ہے، میں نے آپ کی شام خراب کی، آریفاؔ کچھ دیر کے بعد بولی۔
کیا کہہ رہی ہو، میں تمہیں تمہارے بچپن سے جانتا ہوں، اور اگر کوئی چیز تمہیں پریشان کررہی ہے تو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
یقیناً  آپ میرے رویے پر حیران ہوں گے، وہ کچھ دیر کے بعد بولی۔
ثناؔ اور میں مسکراتے ہوئے آریفاؔ کی  طرف دیکھتے رہے۔
میں اس وقت صرف چار برس کی تھی جب ہم نے بوسنیاؔ کو چھوڑا تھا۔ مجھے زیادہ تو یاد نہیں، لیکن بموں کے دھماکے، ساتھ ہی ساتھ چیخیں، آگ کے شعلے اور عمارتوں کے گرنے کا شور یاد ہے۔ ہم سب اُن کالی راتوں میں گھر کے نیچے والے کمروں میں چُھپ کر بیٹھتے تھے۔ پھر ایک دِن ہمیں ایک بڑے ٹرک میں بیٹھا کر ہوائی اڈے پہنچا دیا گیا؛ اور پھر ہم سویڈن ؔکے ایک شہر میں آ گئے۔ ابا ، امی بتاتے ہیں کہ وہ دِن کتنے مشکل تھے، اور کس طرح بہت محنت کے بعد ہمیں رہنے کی اجازت مِلی اور ہم سٹاکہولمؔ پہنچ گئے۔ بعد میں ہمیں سولینتوناؔ میں گھر مِلا، جہاں اب بھی ہم رہتے ہیں۔ اتنے سال گزر چُکے ہیں، لیکن ہر برس نئے سال کی رات ہم پر بہت بھاری گزرتی ہے۔ آج ثناؔ کے کہنے پر میں پہلی مرتبہ گھر سے باہر ہوں، ورنہ ہمارا پورا خاندان اس رات کو گھر کے ایک اندھیرے کمرے میں سب مِل کر بیٹھتے ہیں۔ نئے سال کا ہرپٹاخہ اور اُس کا دھماکہ ہمارے لئے ایک بم ہوتا ہے۔ میری والدہ تو کانپنا شروع کر دیتی ہیں۔ جب آدھی رات والا گھنٹہ گزر جائے تو ہم پھر گھر میں بتیاں جلاتے ہیں، اور کئی  گھنٹوں بعد سب کی طبعیت ٹھیک ہوتی ہے۔

پر اب تو اُس المیے کو اتنا عرصہ ہو چُکا ہے، کیا تمہارے ذہن پر اب بھی اُس کے ویسے ہی اثر ات ہیں ؟
ہر دھماکہ سے وقت سمٹ کر بوسنیاؔ کی راتوں سے جا مِلتا ہے۔

پر اب تو تم سویڈن میں ہو، یہاں تو کوئی فوج یا قاتل تمہارے پیچھے نہیں ہیں۔
پاگلوں فوجیوں کا کیا، وہ تو کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں!

21 جون، 2022
جُون کے تیسرے ہفتے میں مڈ سمر ،سویڈنؔ میں دوسرا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ عموماً  اس وقت موسم گرما اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ سٹاکہولم میں رات ایک دل شکن محبوبہ کی مانند دِن سے چُھپتی پھر رہی ہوتی ہے۔ جوانوں کےہجوم پورے مُلک سے آ کر دالرناؔ کی وادیوں میں یہ دن مناتے ہیں۔ شراب اور کباب کے ساتھ ساتھ، شباب بھی اُن وادیوں کی سبز گھاس پر ہنستے، کھیلتے اوراٹھکھیلیاں کر رہا ہوتا ہے۔

جو دالرناؔ نہ جا سکیں وہ اپنے باغوں میں کوئلوں کی آگ پر ہر قسم کا گوشت اور سبزیاں بھون کر یہ دن مناتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے بھی ایک پارٹی کا اہتمام کیا ہُوا تھا۔ اپنےقریبی دوستوں کے ساتھ ہم نے عزیز جتوئی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ عزیزؔ اور اُس کی بیگم عشرت ؔسندھ سے یہاں حالمستادؔ یونیورسٹی پڑھنے کے لئے تین برس پہلے آئے تھے۔ یونیورسٹی تعطیلات کی بنِا  پر بند تھی تو یہ سٹاکہولمؔ میں چھٹیاں منا رہے تھے۔ جب ہمیں اطلاع مِلی تو ہم نے اُن کو بُلا لیا تھا۔ خوب پُر لطف، آزاد خیال جوڑا تھا۔ دن تو ہم نے باہر باغ میں گزارا، لیکن شام ہونے پر ہم اندر بڑے کمرے میں آ گئے تھے۔ یہاں بھی پہلے گانے اور شاعری کی محفل جمی اور پھر بعد میں کھانے کی باری تھی۔ فریدہ نے بریانی سے پہلے مختلف قسم کے پکوڑوں اور کبابوں کا انتظام کیا تھا۔ کھانے کی میز پر اُس نے خاص طور پرعزیزؔ کا حجم دیکھ کو اُنہیں کھڑکی کے پاس کُرسی دی تھی۔ سب لوگ تو بیٹھ گئے لیکن عزیزؔ کسی تذبذب میں پھنسا اپنی جگہ کھڑا رہا۔
بیٹھیے عزیزؔ صاحب۔
کیا میں اس دیوار کے سامنے بیٹھ سکتا ہوں؟
بالکل، جگہ ذرا تنگ تھی تو میں نے آپ کی کرسی کھڑکی کے سامنے رکھی تھی۔
جی، کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ بولا، میری کمزوری ہے کہ  اگر میری پیٹھ کے پیچھے جگہ بند نہ ہو تو مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا۔
کیوں خیر تو ہے، آپ سویڈن میں ہیں بلوچستان یا پاکستان میں تو نہیں کہ کوئی فوجی آپ کو اُٹھا لے جائیں گے!
میں جانتا ہوں، مگر ہم اتنے لوگوں کو کھو چکے ہیں کہ اب حوصلہ ہی نہیں پڑتا کہ جب تک سامنے سے نظر نہ آئے میں بلِا ڈر کے بیٹھ سکوں۔
مگر یہاں آپ کو کس خطرے کا خوف ہے؟
پاگلوں فوجیوں کا کیا، وہ تو کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply