طاقت کا نشہ اس قدر خوفناک ہوتا ہے کہ، شاید ہی کوئی دوسرا نشہ ایسا ہوگا، موجودہ دور میں امریکہ بہادر نے دنیا پر اپنی گرفت بطور سپر پاور قائم رکھنے کے لیے، دنیا کے تمام خِطوں میں شورش برپا کیے رکھی، افغانستان پر اپنی پوری طاقت سے حملے کیے رکھے اور دنیا کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ، افغانستان پر حملہ کرنا اس لیے ضروری تھا کہ دنیا کو دہشتگردی سے محفوظ کرنا ہے، امریکی اور اس کی اتحادی فوجوں نے کئی عشروں تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی مگر آخر کار، ناکام و نامراد ہو کر ان کو افغانستان سے بھاگنا پڑا، امریکہ نے عراق پر بھی کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور عراقیوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی، مگر طاقت کا جنون ہی ایسا ہے کہ امریکہ بہادر کا دل ہی نہیں بھرتا، مسئلہ فلسطین اسی لیے آج تک نہ حل ہو پایا ہے کیونکہ کہ اسرائیل کو امریکہ کی اندھی اور بھرپور حمایت حاصل ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور ان پر آج تک بدترین اور انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے، فلسطین (غزہ) کی صورتحال اس وقت بھی شدید کشیدہ ہے ،اب تک تقریا ً4 ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے جن میں معصوم بچوں کی ایک کثیر تعداد ہے، اور یہ تعداد گھنٹوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے، اس پوری صورتحال پر عالمی میڈیا خاص طور پر مغربی میڈیا کا کردار نہایت مجرمانہ ہے،اسرائیل اور فلسطین تنازع آج کا نہیں ہے بلکہ ،اس کی ایک قدیم تاریخی حیثیت ہے اصل جنگ عقائد کی ہے اور وہ یہ ہے کہ بیت المقدس تین مذاہب کی مقدس جگہ مسلمانوں کا قبلہ اول، عیسائیوں کے لئے یسوع کی جائے ولادت، یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمان ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔ جن کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق۔ اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ۔ اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا گیا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب کفیل مصر بنے تو آپ کو حکم ہوا کہ اپنے تمام خاندان یعنی آل یعقوب کو مصر بلایا جائے۔ اور مصر کی سرزمین کا ایک مخصوص حصہ ان کے لئے مختص کیا گیا۔ اور اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ اے آل یعقوب اس سرزمین میں تمھارے لئے برکتیں ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری کیے۔ اور یوں اس سرزمین کا نام حضرت یعقوب کے لقب سے اسرائیل پڑگیا۔ جسے آج یروشلم بھی کہا جاتا ہے، آپ کی نسل سے کم و بیش ستر ہزار انبیائے کرام آئے۔ حضرت یوسف کے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی تو اس میں سے آنے والے تمام بنی اسرائیلی یہودی کہلائے ،وقت گزرتا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کا دور آیا۔ جب فرعون نے مصر کی آپ پر تنگ کی تو بنو اسرائیل کے ساتھ آپکو مصر سے نکلنا پڑا، اس دوران بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی بہت سے کرم نوازیاں بھی ہوئیں، جس میں من و سلوی، چشموں کی بہتات، مچھلیوں کے شکار کا ذکر قرآن پاک سے بھی ملتا ہے۔ اور وہیں ہمیں ایک گائے کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے لوتھڑے سے مردے نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرمائیں۔ جوکہ ایک سرخ مائل رنگت کی گائے تھی اور ایسی گائے آج بھی یہودیوں کے نزدیک مقدس مانی جاتی ہے ،حضرت موسی علیہ السلام کے بعد دیگر نبی آئے۔ اس دوران میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلویٰ کا کچھ حصہ بنی اسرائیل نے ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔ یہ اللہ کی طرف حضرت آدم کو دیا گیا ایک خاص صندوق تھا جو نسل در نسل نبیوں کے پاس رہا۔ جسے قرآن میں تابوت سکینہ کے نام پکارا گیا ہے۔ اور یہ یہودیوں کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز ہے۔
حضرت داؤد نے جب جالوت کو ہرا کر اس سے تابوت سکینہ حاصل کیا تو یوں بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ انکی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے اس کو مکمل کروایا اور اسی دوران میں آپکی بھی وفات ہوگئی۔
اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔بعد ازاں بابل کے باشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی گرا دیا۔ اور تابوت سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
سیپرس دی گریٹ نے دوبارہ یہ شہر حاصل کیا۔ یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد کیا اور تابوت سکینہ کو بھی واپس لایا گیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر تعمیر کیا گیا۔ پھر وقت گزرا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ جنہیں نعوذباﷲ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔
یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔
ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا۔
اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود ہے کہ،
*”اے بنی اسرائیل، ان نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر کی گئیں، اور اپنا وعدہ پورا کرو (ایمان لاو) تاکہ ہم بھی اپنا وعدہ پورا کریں۔”*
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تین دفعہ تعمیر ہوگی۔ جوکہ دو دفعہ ہوچکی ہے۔
یہودی اپنے مسیحا اور آخری نبی کے انتظار میں تھے کہ ٹائیٹس کے حملے کے پانچ سو سال بعد نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو یہ جھٹکا لگا کہ سارے نبی حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں تو آخری نبی حضرت اسماعیل کی نسل سے کیونکر آگئے اور انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔مسلمانوں کے لئے بھی وہ انبیاء کی ہی نشانی تھی اسی لئے ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کا نام دیا گیا۔ اسلام کے آغاز میں یہودیوں کو قائل کروانے کی خاطر ہی بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کیونکہ یہودی اسی طرف منہ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔ سترہ ماہ بعد ہماری عبادت کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب موڑ دیا گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا شروع سے قبلہ اول وہی رہا۔ جسے پہلے حضرت آدم اور پھر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا، مسلمین کے دور خلافت میں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں اسرائیل یعنی یروشلم پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ بیت المقدس کے ہی احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اور عین تابوت سکینہ والی جگہ وہ گند پھینکا کرتے تھے یہودیوں کی نفرت میں۔ یروشلم کی فتح کے وقت جب حضرت عمر وہاں گئے تو عیسائیوں پر برہم ہوئے۔ وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی، اور قرآن میں موجود معراج والے واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو اقصی کا نام دیا، یہودیوں کی دیوار گریہ بھی اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے انہیں بھی وہاں آنے کی اجازت دے دی گئی، خلافت عباسیہ تک یروشلم ایک مسلم شہر رہا ،اس کے بعد عسائیوں نے دوبارہ یروشلم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے خلاف پچاس سے زائد جنگیں کرکے بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔ اور پھر سات سو سالوں تک یہ خلافت عثمانیہ کے زیر سلطنت رہا،یہودیوں کو بھی دیوار گریہ تک اپنے مذہبی اقدامات کی آزادی رہی۔ اور یہودی آہستہ آہستہ پھر یروشلم میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران میں کئی بار انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان کو پیسوں کے عوض یروشلم انہیں سونپنے کا لالچ دیا لیکن ناکام رہے اور پھر دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے چن چن کر یہودیوں کو مارا۔ قریباً ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ دربدر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں انہیں یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ انہیں اب خود اپنی پہچان بنانی ہے۔ اور بائبل میں موجود یہودیوں کے آخری عروج سے قبل والی کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ اور وہ یہ تسلیم کرچکے تھے کہ انکا آخری مسیحا اب دجال ہوگا جس کی بدولت پوری دنیا میں انکا دوبارہ بول بالا ہوگا۔ انہوں نے برطانیہ سے ساز باز کرکے خود کو الگ ریاست تسلیم کروالیا۔ یوں اسرائیل باقاعدہ ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے فلسطین اور دیگر مصری علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ پر آئے لیکن اس وقت تک یہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے عرب ممالک کو اس ایک چھوٹے سے ملک سے منہ کی کھانی پڑی۔ عسائیوں نے بھی دیکھ لیا کہ اب ان سے لڑ کر کچھ وصول نہیں ہونا تو باقاعدہ گرجا گھروں میں پادریوں نے تقریبات منعقد کیں اور یہودیوں کے لئے معافی کا اعلان کیا گیا۔ یوں سیاسی اور اقتصادی مفاد پرستی نے دو ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ازلی و جانی دشمنوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا۔ اور قرآن کی بات بھی سچ ہوگئی کہ، *یہود و نصری تمہارے کھلے دشمن ہیں*۔
یہودیوں کا کہنا ہے کہ، خیبر تمہارا آخری موقع تھا انہوں نے یہ بات پورے عالم اسلام کو مخاطب کر کے کی تھی، دنیا میں 57 نام کے اسلامی ممالک ہیں، جن کی ایک تنظیم آگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس ہے، جس کی عالمی منظر نامے میں قطعی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس وقت مسلمان ممالک کی اکثریت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مختلف مالیاتی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہے، فلسطین کا ساتھ نہ دینے کی سب سے بڑی وجہ معاشی مفاد ہے، اس وقت اسرائیل نے غزہ پر جس قسم کے اسلحے کا استعمال کیا ہے وہ مکمّل طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے، جب کہ مغربی میڈیا بھی یکطرفہ رپورٹنگ کر رہا ہے، عالم اسلام کا خدا ہی حافظ ہے، یہ معاملہ غزہ تک محدود رہنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ جارحیت دیگر مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے،کیونکہ پوری دنیا میں پھیلے یہودیوں کے نزدیک ہر ایک کلمہ گوء، محض ان کا دشمن اور رہے گا، یہودیوں کے پاس مال و زر اور آلات حرب وافر مقدار میں موجود ہے اور ان کا واحد نشانہ عالم اسلام ہے، مگر کیا عالم اسلام بھی ہوش میں ہے یا ان کی حالت اس کبوتر جیسی ہے جو کہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے، امریکہ اور اسرائیل مل کر مسلمانوں کے خلاف پوری قوت سے بر سرِ پیکار ہیں، یہ بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج پوری مسلم دنیا فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی تماشائی بن کر بیٹھی ہوئی ہے، ان مفادات نے ان کو ان کے فرائض سے غافل کر دیا ہے، مگر مسلم دنیا اس بات کو یاد رکھے کہ، مسلمانوں کے دشمنوں کے نشانے پر تمام مسلم ممالک ہے، اگر یہ آج فلسطین اور قبلہ اول کے دفاع کے لیے آگے نہ بڑھے تو، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، یہ بھی ظالموں کے ساتھ شریک جرم ٹھہرائیں گے
بقول راحت اندوری،
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر سبھی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں