ہنگامہ ہائے شوق ۔۔۔مونا شہزاد

وہ بہت مشہور گدی نشین تھا،اس کی شعلہ بیانی اس کا خاصہ تھی ۔جس محفل میں جاتا لوگ وجد میں آجاتے۔قران پاک اور حدیثوں کے ایسے ایسے حوالے دیتا کہ لوگ اش اش کر اٹھتے۔دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے۔لوگ اس کی روحانیت کے قائل تھے۔بڑے بڑے بیوروکریٹ ،سیاستدان اس کے آستانے پر حاضری دیتے۔لوگ اس کے جوتوں پر بوسہ دینا شرف سمجھتے۔”بادشاہ وقت” یا جدید دور کے “صدر ” اور “وزیراعظم ” تو نام کے تھے ان سے زیادہ اس کی طاقت تھی،اس کی ایک نظر عنایت کسی کو بادشاہی عنایت کردیتی اور ایک نظر عداوت کسی کو سڑک کے کنارے پر بھکاری بنا کر کھڑا کردیتی۔اس کی شخصیت دیکھ کر بڑے بڑے لوگ مرعوب ہوجاتے تھے ۔اس کی شرعی داڑھی ، چھ فٹ لمبا قد،سفید رنگت،کھڑا ناک نقشہ ،گہری بھوری آنکھیں جن میں ہر وقت ایک عجب سی چمک رہتی تھی۔اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے قبضے میں کئی ہزار جن اور موکلات ہیں ۔اس کے علاقے کی عورتیں،مرد،بچے کبھی ہسپتال نہیں گئے تھے،ان کی ہر بیماری اور دکھ تکلیف کا علاج” پیر صاحب” کے پاس جو تھا۔جب بیماری سے سسک سسک کر کوئی دم توڑتا تو اہل علاقہ اس کو اس کی موت کا وقت قرار دے کر بیچارے عزرائیل کو بدنام کرتے ۔عزرائیل اکثر اپنے نیچے تعنیات فرشتوں کو ہنس کر کہتا :
“علاج معالجہ یہ نا کروائیں اور بے وقت فوتگی کو میرے سر لگائیں ،واہ حضرت انسان تیرے کیا کہنے ۔۔۔۔”
پیر سبطین حیدر کوئی عام شخص تھوڑے تھے،لوگوں کا ان پر اندھا اعتقاد تھا اور وہ اس اعتقاد کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ایک چھوٹے موٹے فرعون بن چکے تھے ۔ان کا دل تکبر کے خول میں اور پھول جاتا جب ان کے مریدین ان کے پیروں پر بوسہ دیتے،اپنی جوان بیویوں اور بیٹیوں کو پیر صاحب سے برکت لینے کے خیال سے بھیجتے۔ہر نئی دلہن حجلہ عروسی تک پہنچنے سے پہلے ان کے پاس دعاؤں کے حصول کے لئے لائی جاتی۔کئی طلاقوں کے ذمہ دار وہ تھے کیونکہ کتنی دلہنوں کی شکلیں دیکھ کر ہی وہ ان کو منحوس قرار دیتے تھے۔ان کے اندھے عقیدت مند فورا دلہن کو طلاق کا زیور پہنا کر رخصت کردیتے۔کچھ ایسی” بابرکت دلہنیں “بھی ہوتی تھیں ،جن کو مزید “بابرکت” بنانے کے لئے پیر صاحب چلہ کھینچنے کے لیے روک لیتے۔ عام دلہنیں اور جوان بچیوں کو تو وہ ازراہ شفقت صرف سر پر ہاتھ پھیرنے یا گلے لگانے تک محدود رہتے تھے ۔
پیر سبطین حیدر کا گاؤں ویسے تو جنوبی پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقے میں واقع تھا۔مگر پورے گاوں میں واحد ان کی حویلی ایسا گوشہ تھا جو سیدھا جنت کا ٹکڑا لگتا تھا ۔پورے گاوں میں بجلی،گیس،پانی اور سیوریج جیسی عام اور ضروری سہولیات موجود نہیں تھیں مگر سبطین حیدر کی حویلی ان تمام سہولیات سے آراستہ تھی۔حویلی کی تعمیر میں اٹالین ٹائلز،نارتھ امریکن ہارڈ وڈ استعمال کیا گیا تھا،ٹائلز کو دبیز ایرانی قالینوں سے سجایا گیا تھا،بہترین چنیوٹی فرنیچر اور کرسٹل سے حویلی کی آرائش کی گئی تھی۔حویلی کا طرز تعمیر بالکل جدید انداز کا تھا،حویلی کے اندر ایک سوئمننگ پول بھی موجود تھا۔جس میں سبطین حیدر سوئمنگ کا شوق فرماتے تھے۔ سبطین حیدر جوں جوں عمر کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے تھے ان کی فرعونیت بڑھتی جارہی تھی ۔ان کے شوق مئے اور طلبِ شباب میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ان کی اپنی چار بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔بیٹے تو باپ کا عکس ہوتے ہیں، اس لئے وہ بابا جان سے تمام داؤ پیچ تیزی سے سیکھ رہے تھے ۔بڑے بیٹے کو سبطین حیدر نے” گدی نشینی” کے لئے چن لیا تھا ۔منجھلے والے کو سی ایس ایس کروا کر بیوروکریسی میں ڈال دیا تھااور چھوٹے برخوردار کی ناؤ سیاست کے بھنور میں ڈال کر اسے وزیر اعلیٰ منتخب کروا دیا۔بیٹیاں بے چاری تو” بے زبان جانور” تھیں ،جنھوں نے تاعمر کھونٹے سے بندھے رہنا تھا کیونکہ ان کے ہاں کا کوئی رشتہ سبطین حیدر کے خاندان میں نہیں تھا،اس لئے ان کو بغیر کسی مقدمے کے سزائے عمر قید سنائی جاچکی تھی۔انھوں نے ساری عمر سبطین حیدر کے آنگن میں اپنی بے رنگی ہتھیلیاں دیکھتے گزار دینی تھیں۔اسی طرزفکر اور طرزعمل پر زندگی چل رہی تھی کہ ان کے ایوانوں پر برے وقت کی دھمک پڑنے لگی۔وہ اس صدا سے بے خبر اپنی خدائی میں مصروف تھے۔جب بھی کسی شخص کے ہنگامہ ہائے شوق حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اس کو محدود کرنے کے لئے اللہ تعالی غیب سے کوئی سبب فرماتا ہے۔ہر فرعون کے لیے موسیٰ نامزد ہوتا ہے لیکن ہم انسان اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں ۔ایک یورپین نو مسلم جوڑے عائشہ اور عبدالرحمن نے سبطین حیدر کے علاقے میں ان کے حریف سے ایکڑوں کے حساب سے کب زمین خرید کر کوٹھی تعمیر کروالی،ان کو پتا ہی نہیں چلا۔سبطین حیدر کو جب ہوش آیا تو ان کی لنکا کو آگ لگ چکی تھی ۔عائشہ اور عبدالرحمن ان کے علاقے میں پاؤں جما چکے تھے، ان کا بنایا ہوا اسپتال اور سکول شروع ہوچکا تھا، سبطین حیدر کے پاس حاضری دینے والوں کی کمی ہورہی تھی ۔سبطین حیدر نے اپنے دائیں بازو رفیق اختر کو کہا:
“ان دونوں کو کسی حادثے میں ختم کردو۔”
رفیق اختر نے لاچارگی سے سر نفی میں ہلایا اور بولا:
“ان دونوں کا تعلق نیو لینڈ کے شاہی خاندان سے ہے۔ان کے پیچھے پورا نیو لینڈ اور اس کی طاقت ہے۔اس لیے جہاں پناہ میرا خیال ہے کہ ہمیں ان کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے ۔”
مگر سبطین حیدر کیسے ہار مان سکتے تھے؟انھوں نے لومڑی کی طرح چھپ کر دو قاتلانہ حملے ان میاں بیوی پر کروائے مگر دونوں دفعہ ان کو منہ کی کھانی پڑی۔سبطین حیدر کے ارادت مندوں کا حلقہ بہت تیزی سے سکڑ رہا تھا ۔سبطین حیدر ایک ان دیکھی آگ میں سلگ رہے تھے ۔اب عبدالرحمن ان کا طاقتور حریف بن کر ابھرا تھا ۔علاقے کے غلاموں کو آگاہی کی روشنی مل گئی تھی ۔
سبطین حیدر کو پتا چلا کہ عبدالرحمن نے یتیم لڑکیوں کی نکاح کی رسم رکھی ہے اور سب کو دعوت عام دی گئی ہے۔وہ بھی دل کی جلن چھپاتا قیمتی تحائف لئے کشاں کشاں شادی کے پنڈال میں پہنچا،پوری شادی کمال کی تھی۔بیس لڑکیوں کی رسم نکاح تھی،بطور وکیل سبطین حیدر نے سخاوت دکھاتے سب کے نکاح ناموں پر بغیر غور کئے دستخط کردئے وہ علاقے کے لوگوں کو واپس ہر قیمت پر جیتنا چاہتا تھا ۔اس کے اشارے پر اس کے لائے ہوئے زیورات اس کے کارندوں نے بہت زور و شور سے دکھائے ،مگر عبدالرحمن اور عائشہ کے تحائف کے آگے وہ پھیکے پڑھ گئے تھے ۔عبدالرحمن اٹھ کر سبطین حیدر کی بغل میں بیٹھا اور ہولے سے بولا:
“اقبال بڑے کمال کے شاعر تھے،ان کی خودی کے تصور نے انسان کو واقعی انسان بنا دیا ۔پھر مسکرا کر اس نے ایک شعر پڑھا۔
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا؟”
کچھ لوگوں کے لئے  یہ صرف ایک شعر ہے اور کچھ کے لئے اس میں زندگی  بھر کا سبق مضمر ہے۔
پھر اس نے ہنس کر کہا :
“بچیاں رخصت ہورہی ہیں، زرا سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں تو دیجیئے۔”
سبطین حیدر نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق بادل ناخواستہ آگے بڑھے اور جھنجھلاہٹ میں اپنی سالہا سال کی عادت کے مطابق پہلی دلہن کو کھینچ کر کس کر گلے سے لگایا:
دلہن آہستہ سے ان کے کان میں بولی:
“شکریہ اباجان اس محبت سے رخصت کرنے کا۔”
اپنی بڑی بیٹی کی آواز سن کر ان کے دل پر گھونسہ لگا،انھوں نے فٹافٹ اگلی تین دلہنوں کے گھونگھٹ اٹھائے تو ان کی بیٹیاں سہاگنوں کے روپ میں ان کے سامنے تھیں ،شاید پنڈال کی چھت بھی ان پر آ گرتی تو ان کو اتنا دکھ نہ ہوتا، بیٹیوں کی شادیوں کا مطلب جائیداد میں حصہ داری تھی اور یہ کب ان کو منظور تھا۔وہ ایک دم سے تیورا کر گر گئے،فالج کے عفریت نے ان کو جکڑ لیا۔مکافات عمل کی لاٹھی چل چکی تھی۔
سبطین حیدر کی چاروں بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں شاداں و فرحاں تھیں ، وہ اکثر اپنے خاوندوں کے ساتھ میکے بڑے مان سے آتیں اور سبطین حیدر کے بڑے لاڈ اٹھاتیں ۔سبطین حیدر پھٹی پھٹی نظروں سے انھیں تکتے رہتے ۔
اب سبطین حیدر وہیل چیئر پر قید” مجرم” تھے ،ان کی خدائی لٹ چکی تھی ،ساری عمر لوگوں کو انصاف کی آڑ میں لوٹنے والے کو اللہ تعالی نے انصاف فراہم کردیا تھا۔ ان کی زبان صرف ایک ہی لفظ کا ریکارڈ کی طرح بجاتی تھی ، ان کی عیادت کرنے والوں کو ایک ہی لفظ سمجھ آتا تھا جو وہ بار بار ٹیڑھے منہ سے دہراتے رہتے ہیں ۔
“ہائے ہنگامہ شوق “۔

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply