ہماری شادی۔۔۔۔رابعہ الرَبّاء

ہم کپتان ہوئے تو گھروالوں نے ہماری شادی کی ٹھان لی مگر بڑے بھائیوں نے عجب ظلم ڈھائے کہ ایک نے شادی کا رِسک ہم پہ لینے کے بعداپنی شادی کا فیصلہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور دوسرے نے شادی نہ کرنے کا اعلانِ عام سُنا دیا۔
ہم چھوٹے تھے کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے تھے لہٰذا ابا جی نے تیسرا ظلم یہ کیا کہ سب رشتہ داروں کے ہاں سلام کے لیے بھیجا۔سلام کا مطلب کلام اور پھر پیام تھا۔ ہم جانتے تھے۔۔ہمیں پھوپھی اماں کی ایک رشتہ دار کے ہاں ایک حسینہ بھاہ گئیں مگر اماں نے بتایا کہ ابا جی نے ایک ہی لفظ میں انکار کر دیا۔
ہم واپس آگئے اس کے بعد ہمیں صرف اپنی شادی کا کارڈ ملا۔جس پر پھوپھی زاد کا نام گرامی ہمارے ساتھ درج تھا۔
ادھر ملکی حالات میں بگاڑ آرہا تھا۔ادھر اندر دگر گوں کی کیفیت تھی چونکہ ہم فوجی تھے خود کو ملک پر قربان کرنے کی ٹھان لی۔
اس کے بعد ہماری شادی کی تیاریاں بڑے بھائی جان کرتے رہے اور ہمیں دوسرے بھائی جان کے خطوط سے اطلاع ملتی رہتی کہ شاہی شیروانی سلنے جا چکی ہے خاندانی طرز کا شاہی کلاہ بھی لے لیا گیا ہے۔ کُرتا اور چست پاجامہ بھی آچکا ہے۔۔۔
ایک طرف خط ملا تو دوسری طرف تبادلے   کی اطلاع۔۔۔

شادی کے لیے بھی باقاعدہ چھٹی نہ مل سکی کہ مہندی کی ڈھولک گھر میں بج رہی تھی اور فوج سمیت ہمارا سامان اتر رہا تھا۔ہم اتنے دن کے تھکے ہارے بہنوں اور چچا، تایا،ماموں،خالہ زادوں کی چھیڑ چھاڑ سے بھی خود کو دولہا تصور نہیں کر پا رہے تھے جو تیل اُبٹن انھوں نے ہم پہ لگایا تھااسی سمیت سو گئے۔
اذانِ فجر کے ساتھ ہی ہمیں بھی اٹھا دیا گیا اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ ہماری فلائیٹ امی ابا کے ساتھ شام کی ہے۔ باقی سب کو صبح ریل گاڑی سے روانہ ہونا تھا۔ لیکن ہم پر  صبح صبح حملہ ہو گیا کہ فلائیٹ ملکی حالات کے باعث کینسل کروا دی گئی ہے۔ لہٰذا دولہا بننا پڑے گا۔ کیوں کہ گھر میں خاندان ا کٹھا ہو چکا تھا۔کچھ ریت رواج تھے۔جس کو شان سے نبھانا بھی تھا۔ورنہ کچھ ہوتا نہ  ہوتا،ناک کٹ جاتی۔ جو فوج میں آنے سے پہلے ہی ڈاکٹرز نے کاٹ دی تھی۔ تو ہم فوج میں آنے کے قابل ہوئے۔

بے وقت کے دولہا بننے کے لیے بھائی جان نے ہمیں باتھ روم میں گھسا دیا۔تولیے میں لپیٹے باہر آئے تو صدقہ خیرات ہونے لگی۔ اور بھائی ہمیں کمرے میں لے گئے۔ چست پاجامہ تو کمال آیا۔کیا زبردست سائز تھا۔ مگر شیروانی۔۔۔۔۔۔”بھیا یہ تو لُوز ہے۔۔۔۔“
اب کیا کیا جائے۔۔۔
بھیا نے جون جولائی کی شدید گرمی میں بھی اس کا حل تلاش کر ہی لیا آخر انٹیلیجس کا تجربہ کام آیا۔ سوئیٹر لائے۔ ہماری شیروانی اتاری اور کُرتے کے نیچے دونوں سوئیٹرز پہنا دیے۔ اور پیار سے کہنے لگے ”کوئی بات نہیں بیٹا کچھ ہی دیر کی تو بات ہے۔“
مگر بھائی جان جولائی ہے۔
تو چھوٹے بھیا بولے ”یار ریلیکس! ہم سب بھی تو ابا کی جلالی جولانی کی تخلیق و پروان ہیں۔“
اور یوں دو سوئیٹر ز کے ساتھ شیروانی کا سائیز فٹ فاٹ ہو گیا۔“

ہم کیا جچ رہے تھے، سب نے واری جا جا کر۔۔ ہم کو صبح بہاری کر دیا۔۔ مگر جو آگ اس وقت اندر لگی ہوئی تھی۔۔۔ اس کا تذکرہ کون کرتا۔۔۔ کس سے کرتا۔۔
اب بدن میں گرمی کے ساتھ خارش بھی معرضِ وجود میں آنے لگی۔کسی قسم کا کوئی صدقہ اس عذاب کو نرم و کم نہ کر سکا۔ انگارے گلزار نہ ہوئے۔چہرہ جو گرمی و خارش سے تلملا رہا تھا۔اس کو خوشی سمجھا جانے لگا۔
ہمارے خاندانی خانسماں قریب آئے،اور بہت انہماک سے بولے۔
”بیٹا جب بچپن میں آپ خوش ہوتے تھے آپ کا چہرہ خوشی سے تلملاتا اُٹھتا تھا کیا شادی کے نام پہ کان بھی تلملانے لگے؟،،
ہم ایک خاندانی جمِ غفیر میں پھنسے ہوئے تھے۔ بس اتنا کہہ سکے۔”بڑے بھیا سے پوچھیے۔۔۔۔۔،،
خیر چند گھنٹوں کی برف باری کے بعد ہم ریل گاڑی میں تھے۔ٹرین کی فسٹ کلاس، ساری فیملی بکنگ تھی۔ لہٰذا اس میں ایک ڈر با ہم دس بھائیوں کا بھی تھا۔جہاں بڑے بھیا مجھے جلدی سے لے گئے اور سب کچھ اتار کے مجھے گیلے ٹاول میں لپیٹ دیا۔۔۔۔
بھائی آپ نے کمال کر دیا۔۔۔۔

کچھ ہمارا خاندانی مزاج ایسا تھا کہ ہم بڑے بھائیوں کے سامنے ٖکچھ کہہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کچھ اماں سے وراثت میں ملے برف مزاج کی پیداوار نے ہمیں چند گھنٹوں میں دانے دار کر دیا۔مگر دونوں بڑے بھائیوں نے ہمیں سفرمیں دوبارہ فوجی بنا دیا تھا۔
لاہور سے دوسری بارات بھی باقی ڈبوں میں سوار ہو گئی جو ہماری ہونے والی زوجہ کی ہمشیرہ محترمہ ہی کی تھی جو اپنے خالہ زاد کے مقدر میں لکھی گئیں تھیں۔
کراچی میں یہ میدان جنگ بپا ہونا تھا۔لہٰذا پھر وہ جرسیوں والا دولہا بنا کر ہمیں ہال لے جایا جانے لگا۔
پھر سے خوشی سرخی بن کر چہرے اور کا نوں سے عیاں ہونے لگی۔
دونوں دولہاؤں کو اکٹھے شاہی تخت پر بٹھایا گیا تو ہم نے اپنے ہم زلف کے گوش گزار کیا کہ”بھائی ذرا دیکھ کے اپنا ہی کپسول لے جا ئیے گا۔کہیں ہماری بندوق کی گولی نہ لے جائے گا۔“
انھوں نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے۔
”بھائی جان ڈاکٹروں کو معلوم ہوتا ہے کہ انجکشن لگانا ہے یا۔۔۔،،
ہم مسکرا ئے اور لمحہ بھر کو سکون ہوا کیوں کہ ہال میں برف باری نہ سہی،ٹھنڈی ہوائیں ضرور تھیں اب ہمیں لمحہ بھر کے لیے احساس ہوا کہ ہم دولہا میاں ہیں۔۔ اور شادی بھی ہماری ہی ہے۔۔۔۔
بس کچھ ہی دیر میں کھانا رسمیں اور پھر ہمیں ریل گاڑی سے رخصت ہونا تھا۔ جس میں عروسی ڈربہ خصوصاً تیار کروایا گیا تھا۔

پہلا نکاح ہو گیا۔۔۔۔
مگر جس کے ساتھ مولانا ہمیں ایجاب و قبول کروا رہے تھے وہ ان کی بڑی بہن صاحبہ تھیں۔ جن کا نام کارڈ پر درج تھا۔
ہم نے حیرانی سے آنکھیں اوپر اٹھائیں تو سامنے ابّاکی ہم سے  بڑی آنکھیں موجود تھیں۔ہم نے آنکھیں جھکا کر رومال رکھ کر تین بار قبول کر لیا۔
رخصتی ہو گئی عروسی ڈبے میں زوجہ کو پہنچا دیاگیا۔ ہم کانپتے کانپتے قدموں اندر گئے۔ خلوت خانہ سجایا اور جلدی سے شیروانی کا عذاب اتارنے لگے۔
زوجہ محترمہ نے جو دیکھا تو بے ہوش ہو گئیں۔ اتنے میں ابّا نے دڑبہ بھی کھٹکھٹا دیا اور کہنے لگے۔
”بیٹا ذرا دلہن کا خیال رکھیے گا۔،،
ایک جسمانی آگ میں ہم تڑپ رہے تھے،دوسری ابا لگا کر چلے گئے۔مگر کیسے کہتے۔”اپنے تو چودہ شیر خوار تھے۔ا ٓپ کے اور ہماری مرتبہ۔۔۔“
مگر ہم منمنائے۔۔۔
جی۔۔ جی ابّا حضور۔۔۔۔
ادھر زوجہ کو پانی کے چھینٹوں سے نوزانے لگے۔خاتون کو ذرا ہوش آیا تو ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔
ریل باہر دوڑے جا رہی تھی اور گرمی میرے اندر۔۔۔۔ سوچا اب حالات بہتر ہیں جرسی اتار ہی لوں۔۔۔
شیروانی کے چوتھے بٹن پہ ہی ہاتھ تھا کہ خاتون پھر بے ہوش ہو گئیں۔۔ہم نے پھر اپنی کوششوں سے انھیں ہوش دلایا تو ابا جی کی آواز پھر ٓائی۔
”بیٹا، دلہن کا خیال رکھئے گا۔ ہماری بہن نے بہت ناز سے پالا ہے،،
ہم نے جوش کا گلاس محترمہ کو تھمایا اور کہنے لگے۔
”محترمہ مجھے غلط نہ سمجھیے۔۔۔ یہ دیکھیے۔۔۔۔
ابھی ہمارے ہاتھ کُرتے کے بٹن تک ہی گئے تھے کہ گلاس دھرام سے نیچے اور محترمہ بے ہوش۔۔۔۔
اس مرتبہ ہم نے پہلے خود کو جرسیوں سے آزاد کیا اورلان کا حیدرآبادی کُرتا پہنا اس کے بعد محترمہ کو ہوش میں لائے اور شکرکیا خاتون نے ایک نظرہی سہی ہمیں دیکھا تو۔۔۔
ہم نے وہ انگوٹھی رسماََ سہمناََ انھیں پہنا دی۔۔۔ وہ کپکپا گئیں۔ہم جوش میں جو ذرا مزید کھسکے تو وہ پھر بے ہوش گئیں۔
لیکن اس مرتبہ ہم نے انھیں ہوش میں لانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔دوسری طرف دھیرے سے لیٹ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یک دم ہمارا سارا خیال وجود سمیت سرحدوں کی طرف چلا گیا۔ زمین اپنی اور کھینچ رہی تھی۔۔۔۔ کہ اتنے میں اذانِ فجر کی آوازیں سُنائی دینے لگیں دریں اثنا وہ ہوش میں آ گئیں۔ ہمیں سلام کیا۔ نمازپڑھی اور ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔صبح کا اجالا اپنا رستہ بنانے کی سعی مسلسل میں تھا۔ دووقت آپس میں مل رہے تھے۔ ہم نے بھی کوشش کی۔۔۔ مگر وہ بے ہوش۔۔۔۔ ہوگئیں۔
اب کی بار تو ہم بے ہوش ہونے والے تھے۔ مگر ہم نے سب ارمان دل سے نکال باہر کئے اور باقی کا سفر دونوں کی بے ہوشی کے بغیر خامشی سے گزر گیا۔
گھر پہنچے تو خاتون کو فریش کروا کے دوبارہ عروسی لباس سے مزین کر دیا گیا اور اب ہم  حجرہ عروسی میں تھے۔۔۔
ارمانون نے انگڑائی لی اور جوان ہو گئے ہم جو قریب گئے تو اب وہ ہوش میں تھیں۔ ان کے ہوش نے ہمارے ہوش اڑا دئیے۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں دروازہ ناک ہوا۔۔۔۔ بڑے بھائی کی اداس آواز آئی۔”شمشاد تمہیں ایمرجنسی کال کر لیا گیاہے، حملہ ہوا ہے بیٹا فوراً پہنچناہے“
ہم اپنے ارمانوں سمیت رخصت ہونے لگے تو انھوں نے بڑھ کر اپنے لبِ شیریں سے ہمیں مدہوش کر دیا اور بولیں۔
”فتح مند لوٹیے گا۔۔۔۔ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں،،‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply