ہمارے نظامِ شمسی کے آٹھ سیارے۔۔زمین/قسط6

چاند ہماری زمین کا ایک سیارچہ ہے۔ زمین سے کوئی دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اورآتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔ چاند کا دن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چاند کا مدار زمین کے اردگرد بڑھ رہا ہے یعنی اوسط فاصلہ زمین سے بڑھ رہا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سےسمندر میں مد و جزر بھی پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔

ابتداء!
چاند کی ہییت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص سمت سے زمین کے قریب ایک خاص راستے (trajectory) پر آنا ضروری ہو گا، جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔ موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اُڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ کمپیوٹر پر Simulation سے اس نظریہ کو تقویت ملی ہے۔

کشش ثقل!
اس کی کشش ثقل gravitational force زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔

چاند زمین سے!
زمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباًً 41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ  آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔

افزائشِ مدوجزری!
افزائشِ مدوجزری سے مراد کسی سیارہ کے سمندروں کے مدوجزر کی وجہ سے اس کے ذیلی سیارہ کے مدار کا بڑھنا ہے۔ مثلاً چاند کی کشش سے زمین کے سمندروں پر مدوجزر آتا ہے۔ یہ مدوجزر ایک طرف تو زمین کی گردش پر اثر انداز ہوتا ہے اور دوسری طرف چاند کو دھکیلتا ہے۔ اس سے چاند کا مدار ہر سال 3.8 سینٹی میٹر بڑھ جاتا ہے۔ مدار کے بڑھنے کی وجہ سے ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب ہم زمین سے کبھی مکمل سورج گرہن نہ دیکھ سکیں۔ فلکیاتی اندازوں کے مطابق افزائشِ مدوجزری کا عمل ساڑھے چار ارب سال سے جاری ہے جب سے زمین پر سمندر بنے تھے۔ چاند کا زمین سے فاصلہ کا صحیح اندازہ اس وجہ سے ممکن ہے کہ 1969 میں چاند پر سائنسدانوں نے کچھ عکاس (Reflector) یا آسان الفاظ میں ایسے آئینے رکھ دیے تھے جن سے زمین سے ارسال کردہ لیزر شعائیں واپس آتی ہیں۔ ان شعاؤوں کے واپس آنے کے وقت سے، جو انتہائی درستی سے ناپا جا سکتا ہے، یہ حساب لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت چاند کا فاصلہ کتنا ہے۔ اس سے بھی یہ پتہ چلا ہے کہ چاند کا زمین سے اوسط فاصلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ یہی حساب مصنوعی سیاروں سے چاند پر لیزر شعائیں بھیج کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔

چاند کی تسخیر!
20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلےانسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔
چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اورپانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کیے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میںلوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔

چاند پر حالیہ مشن!
امریکا 2020ء تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک کالونی کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ناسا کے مطابق اس کا مقصد نظامِ شمسی کے بارے میں دریافتوں کی غرض سے مزید انسان بردار مشن روانہ کرنا ہے۔ 1972ء کے بعد یہ کسی انسان کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پہلا منصوبہ ہے۔ قومی ہوائی و خلائی انتظامیہ (این اے ایس اے) نے کہا ہے کہ یہ طویل المدتی منصوبہ دنیا کے 14 خلائی اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین نے ایک سیٹلائٹ خلا ٕ میں روانہ کیا ہے جو اس روبوٹک گاڑی اور زمین کے درمیان رابطہ کاری کو ممکن بناۓ گا جسے رواں برس کے آخر میں چاند کے تاریک حصے میں اتارا جانا ہے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مشن ہو گا۔ Queqiao نامی اس سیٹلاٸٹ کو چین کے جنوب مغرب میں واقع شی چینگ لانچ سینٹر سے خلا ٕ میں بھیجا گیا۔ چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن CNSA کے مطابق اس سیٹلائٹ کو لانگ مارچ ۔ فور سی راکٹ کے ذریعے خلا ٕ میں پہنچایا گیا اور پرواز کے 25 منٹ بعد یہ سیٹلائٹ راکٹ سے الگ ہوا جس کے بعد اس کے سولر پینل اور رابطے کے انٹینا کھلے یہ چاند کی جانب اپنے سفر میں آگے بڑھ گیا۔ CNSA کے مطابق چاند کے تاریک حصے میں روبوٹک گاڑی کو اتارنے کے اولین مشن کے سلسلے میں بھیجا جانے والا سیٹلائٹ ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ زمینی کنٹرولر اور رواں برس کے آخر میں اتاری جانے والی روبوٹک گاڑی ”چانگ اے فور“ کے درمیان رابطے کو ممکن بناۓ گا۔ چاند کا تاریک حصہ آج تک کبھی زمین سےدیکھا نیں گیا تاہم اسکی تصاویر ضرور اتاری گئی ہیں۔ اس حصے کی پہلی تصویر 1959 میں اتاری گئی  تھی۔ چین اس سے قبل یو ٹو نامی روور مشن 2013 میں چاند پر اتار چکا ہے۔ چاند کی سطح کےبارے میں یہ روبوٹک گاڑی 31 ماہ تک زمینی اشٹیشن کو معلومات روانہ کرتی رہی۔ یہ دورانیہ اس سا کہیں زیادہ طویل تھا جس کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ چین بعد ازاں ”چانگ اے فائیو“ مشن بھی چاند پر اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے جو وہاں کی سطح کے نمونے لیکر واپس آۓ گا۔ چین اپنے خلائی  پروگرام پر اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے جس کا مقصد 2022 تک ایک خلاٸ اسٹیشن کا قیام اور مستقبل قریب میں ایک انسان بردار مشن چاندپر اتارنا شامل ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply