عمران خان کیخلاف سائفر مقدمہ اور اس کی حقیقت

سائفر کسی بھی اہم اور حساس نوعیت کی بات یا پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ کار ہے جس میں عام زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر 2023 کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں انھوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔

اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ’سائفر اسسٹنٹ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمے میں انھیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کسائفر کو نہ اپنے پاس رکھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں جو کچھ لکھا گیا تھا اس کو کسی کی ساتھ شئیر کرسکتے تھے اور نہ ہی وہ اس معاملے کو پبلک میں لاکر اس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے تھے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply