بین السطور/اقتدار جاوید

سیاست اور سیاست دان ہماری جمہوری معاشرت کا اہم جز ہیں۔سیاست دان ہی ملکی معاملات سر انجام دینے کے اہل اور قابل ہیں۔ان کے بارے میں سوئے ظن سے بچنا لازمی ہے۔وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔بین السطور والے کالموں میں ان کے بارے میں ہلکی پھلکی گفتگو کا انداز اختیار کیا جاتا ہے ورنہ حاشا و کلا دل آزاری ہمارا قطعاً مقصد نہیں۔البتہ انیس کی طرح ہم خیال ِ خاطر ِ احباب کے قائل نہیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ایک غیر رسمی مشاورتی اجلاس میں کہا ہے کہ “نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی معاشی خود انحصاری کا خواب حقیقت بنائیں گے”۔اب تک ہزار ہا کوشش کے باوجود یہ خواب خواب ہی رہا ہے۔پچھلے سولہ ماہ چونکہ ان کی نہیں میری قیادت میں حکومت چل رہی تھی اس لیے بھی یہ خواب تشنہ تعبیر رہا۔کوشش میں نے بھی بہت کی تھی اور حصہ بقدر جثہ کے مصداق عزیزی رانا ثنااللہ اور ہونہار مصدق ملک (روسی سستا پٹرول فیم) کی مساعی جمیلہ بھی اس کار ِخیر میں شامل تھیں مگر ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔تقدیر اور وقت کے سامنے کسی کو پر مارنے کی مجال نہیں ہے۔اور ہم نے تو ویسے بھی کبھی کسی کو پر مارنے نہیں دیا اس لیے کہ اس کے مرنے کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ البتہ دو آدمی از خود ہی پر مارنے کی کوشش کرنے کا آغاز کرنے ہی والے تھے کہ دونوں کو بیک بینی و دو گوش ن لیگ سے ہی نکال دیا۔ایک آج کل ہمارے خواب کے خلاف انگریزی میں مضمون لکھنے میں وقت برباد کر رہے ہیں اور دوسرے ہماری مقبولیت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ایک کا نام مفتاح اسماعیل ہے اور دوسرے کا نام آپ کو پتہ ہی ہے۔وہ دونوں اپنا الگ خواب حقیقت بنانے کی دھن میں ہیں۔حالانکہ وہ بھی وقت ہی برباد کر رہے ہیں۔ان دونوں کو کیا پتہ کہ وقت کس طرح برباد کیا جاتا ہے ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔یہ کام جس کو ساجھے وہی کر سکتا ہے۔ہم نے نصف صدی کی ریاضت کے بعد اس راز کو پایا ہے۔یونہی وقت ضائع کرنے کا نسخہ ہاتھ نہیں آتا
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار سخت مقام آتے ہیں
اسی پر بس نہیں
وصل کی رات گذر جائے نہ بے لطفی میں
کہ مجھے نیند کے جھونکے سرِ شام آتے ہیں۔

کوئی سیکھنا چاہے کہ اس کام میں ہمارا چالیس سالہ تجربہ ہے۔معاشی خود انحصاری بہت ساری ہم نے حاصل کر لی ہے جو ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے وہ آنے والے الیکشن کے بعد نکل جائے گی۔آزمائش شرط ہے۔

انہوں نے کہا کہ “ن لیگ کے امیدواروں اور الیکٹیبلز کا سروے کروایا جائے گا۔” قوی امید ہے کہ سروے ن لیگ کے خلاف ہی جانا ہے اس لیے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی اپنے ہی پیارے ملک کے باشندے ہیں کوئی کالے پانی سے تو نہیں آئے ہوئے۔سروے کروانے کے بعد اگر کوئی کام کا دانہ اپنی جماعت کا نکلا تو نظر بٹو کے طور پر اس کو بھی میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔اس اجلاس میں انتخابی تیاریوں پر بھی گفتگو کی گئی اور ایک دوسرے کو سمجھایا بھی گیا اور حوصلہ بھی دیا گیا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔اگر کوئی مقبول ہے تو اس کے روکنے کا الگ انتظام کیا جا رہا ہے اس بارے میں آپ متفکر نہ ہوں۔ہم پہلے ہی بہت متفکر ہیں آپ مزید فکر کر کے ہمیں پریشان نہ کریں۔

اطلاع ہے کہ” شہباز شریف نے بڑی تعداد میں پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں موصول ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔”اور کہا کہ ان حالات میں بھی جو ہمارے ٹکٹ کے متمنی ہیں ان کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ با ہوش و حواس کنوئیں میں کون چھلانگ لگاتا ہے۔ہم ان کو ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا بھی سروے کروایا جائے گا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو اب بھی ہمارے ٹکٹ کے خواستگار ہیں۔انہوں نے کہا ” جرم ضعیفی کی سزا سے بچنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔”یعنی اقبال نے جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہو چکا ہے۔لہذا ملک کی تمام پارٹیوں سے گزارش ہے کہ جرم کسی اور کے متھے جڑنے کا اس سے بہتر موقع کبھی نہیں ملے گا۔آج کل ہر جرم کا کھرا تحریک انصاف کے گھر نکلتا ہے سو آئیں قوم پکار پکار کر ہلکان ہو رہی ہے قوم کی آواز پر لبیک کہیں۔ جرم کے ساتھ مجرم کا کام بھی ساتھ ہی تمام کر دیا جائے۔ایک تیر اور دو شکار اسی کو کہتے ہیں۔جہاں تک ضعیفی کا تعلق ہے تو اس کو لغوی نہیں اصطلاحی معنوں میں لیں اور غور کریں۔یہ سیاسی ضعیفی کی بات ہو رہی ہے جسمانی ضعیفی پر ِکاہ کے برابر بھی اہم نہیں۔جسمانی ضعیفی حکومت کی جوشاندے سے دور ہو جاتی ہے۔آزمودہ نسخہ ہے۔اس جوشاندے کی تیاری زور شور سے جاری ہے۔مختلف جڑی بوٹیوں کو چھانٹا جا رہا ہے۔اس کو زود کوب میں رگڑنے کا عمل جلد شروع کر دیا جائے گا۔اس موقع پر ” رہنماؤں نے اپنے اپنے حلقوں میں اپنی انتخابی تیاریوں کے متعلق بھی بتایا”۔ان رہنماؤں نے بتایا کہ وہ میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں اور کئی طرح کی حکمت عملیاں طے کر لی ہیں۔ان میں سب سے پہلی الیکشن میں کھڑا ہی نہ ہونا ہے۔جب ہم نے الیکشن میں کھڑے ہی نہیں ہوں گے تو ہارنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔انہوں نے مزید کہا ” معاشی طور پر خود انحصار اور مضبوط پاکستان امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔”کیونکہ امت مسلمہ کے مسلمہ لیڈروں کے ہاں ہم وقت ہنسی خوشی گزار کر آئے ہیں۔ہمارے مفادات کا امت کے مفادات سے ایک روحانی قسم کا تعلق ہے۔
یہ مال و دولت ِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا اور دنیاوی معاملات سے فقیروں کا کیا لینا دینا۔سچ پوچھیں تو دنیا ایک قید خانہ ہے اور دل لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ہم اس موضوع پر گاہے ماہے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں اور وہ اس حقیقت کو کافی جان چکے ہیں جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی ہے اس کا سبب بھی بن ہی جائے گا۔اللہ کی ذات مسبب الاسباب ہے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply