• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مرض تشخیص ہوچکا، علاج جاری ہے، قوم مطمئن رہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

مرض تشخیص ہوچکا، علاج جاری ہے، قوم مطمئن رہے/ڈاکٹر ابرار ماجد

2014 سے لے کر 2017 کے نئے تجربات کی کوششوں نے صحت مند وطن کو کئی بیماریوں سے دوچار کردیا اور آج صورتحال سنبھالنی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ نہ صرف اس دوران وائرس چھوڑے گئے بلکہ بعد میں ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر ان کی پراجیکشن کے لئے خاص ماحول بھی مہیا کیا جاتا رہا اور جب اس ناکام تجربے والوں کو احساس ہوا اس وقت تک مرض بہت بڑھ چکی تھی اور بدن کے مدافعتی نظام کو بھی خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔

شروع میں کوشش کی گی کہ ہومیوپیتھک علاج سے مرض کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ اب میٹھی گولیوں سے یہ مرض سنبھالنا مشکل ہوچکا ہے بلکہ مرض کے پھیلنے سے ڈی جنریشن کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اگر مزید دیر کی تو مرض لا علاج بھی ہوسکتا ہے تب معالجین نے جراثیم کش دوائی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس سے ظاہر ہے جہاں جراثیموں کو دبایا جا رہا ہے وہاں پر مدافعتی نظام بھی متاثر ہورہا ہے مگر خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس سے اب مرض کنٹرول میں آچکا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک مرض کنٹرول میں نہیں لگتا کیونکہ معاشی صورتحال سنبھل نہیں رہی اور وطن عزیز وینٹی لیٹر پر جا رہا ہے۔ دراصل وہ صورتحال کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہے۔ جب بدن کو شوگر بھی لاحق ہوچکی ہو، زخموں پر لگائے جانے والی دوائی بھی خالص نہ ہو اور خون رستا رہے، گردے بھی ناکارہ ہو رہے ہوں اور اچانک اس کو دل کا دورہ لاحق ہوجائے تو وینٹی لیٹر پر جانے کا سبب صرف دورے کو تو نہیں قراد دیا جاسکتا کیونکہ دل کے دورے کے پیچھے اصل کارفرما وجوہات تو دیرینہ امراض تھیں جن کا بر وقت علاج نہیں ہوسکا۔

اور علاج کے شروع میں تو زخموں کو مندمل ہونا بھی ایک چیلنج بنا ہوا تھا ایک طرف سے زخموں کو صاف کرکے دوائی لگائی جاتی تو دوسری طرف سے ان کی نگہداشت کے ذمہ داران پھر سے انہیں کرید کر ان کو خون آلود بنا دیتے تھے۔ جب نومبر 2022 زخموں کو محفوظ نگہداشت میسر آئی تو سپریم کورٹ میں بیٹھے ایک کیمیا گر نے اپنے تجربے شروع کر دیے اور دوائی میں خطرناک کیمیکل ملانے کی پوری کوشش جاری رکھی۔ یوں ستمبر 2023 میں اس کیمیا گر سے جان چھوٹی تو خالص دوائی میسر آئی اور اب امید شفا دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

سادہ لوح عوام کو معلوم نہیں مگر اس ملک کے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، جمہوری اور سیاسی ماہر معالجین یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اب اس وطن کو لگی ہوئی امراض کا حل جراثیم کش ادویات کے بغیر ممکن نہیں رہا تھا سیاست اور جمہوریت میں شفافیت اور غیر جانبداری تو بہت ضروری ہے مگر سیاست میں انتشار اور جمہوریت کو قانون و آئین کے سامنے لا کھڑا کرنا اور عوام کو ریاست کے مد مقابل کھڑا کرکے اقتدار کے حصول کی شرط پر سیاست کرنے کا جمہوریت کے نام پر عمل قابل جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی جمہوری اقدار اور اصولی سیاست میں کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے اگر مرض آٹوامییون بننے لگے تو اس کے لا علاج ہونے کا خطرہ لاحق ہونے لگتا ہے۔

یہی ہوا اور 9 مئی کو مرض نے بدن کے آرگنز پر حملہ کردیا اور مدافعتی نظام کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی جس سے علاج کو تبدیل کرنے اور ساتھ ساتھ فزیوتھراپی بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب مرض تو کنٹرول میں ہے مگر مدافعتی نظام کو مکمل طور پرشفایاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جراثیموں کو اس وقت تک دبا کر رکھا جائے جب تک مدافعتی نظام مکمل طور پر مضبوط نہیں ہوجاتا جس کے لئے مناسب عرصہ درکار ہوتا ہے اور امید ہے کہ آگے پانچ سال اگر یہی علاج جاری رہا تو مدافعتی نظام مکمل طور پر صحت مند ہوکر ان جراثیموں پر قابو پانے کے قابل ہو جائے گا۔ عوام مطمئن رہیں مرض دریافت ہوچکا، علاج جاری ہے مگر تھوڑے عرصے کے لئے انتظار فرمانا پڑھے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply