سائفر کا سفر/پروفیسر رفعت مظہر

عوام توکجا ارکانِ اسمبلی کی غالب اکثریت بھی شاید نہ جانتی ہو کہ “سائفر” کس “بلا” کا نام ہے۔ اب عمران خاں کی مہربانی سے عامی بھی اِس اہم اور حساس نوعیت کے پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ جان گئے جس میں عام زبان کے بجائے کوڈڈ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ کسی عام سفارتی مراسلے کے برعکس سائفر کوڈڈ زبان میں لکھا جاتاہے جسے صرف ماہرین ہی ڈی کوڈ کر سکتے ہیں۔ اِس وقت بھی پاکستان کے دفترِخارجہ میں لگ بھگ 100 ایسے ماہرین موجود ہیں جو سائفر ڈی کوڈ کرنے پر مامور ہیں۔ یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرونی ممالک کے سفارت خانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔

سائفر کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر اسد مجید کی ایک کھانے پر امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو سے ملاقات ہوئی جہاں ڈونلڈلو نے اسدمجید سے پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی۔ اسد مجید نے اِس گفتگو کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے دفترِخارجہ میں سائفر بھیجا۔ دفترِ خارجہ نے سائفر اسسٹنٹ کی مدد سے اِسے ڈی کوڈ کیا اور اِس کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے صدرِ مملکت، وزیرِاعظم، آرمی چیف اور DGISI کو بھیج دیا۔ سائفر کی یہ ڈی کوڈڈ کاپیاں اصل ہی تصور ہوتی ہیں اور اِنہیں بہرصورت ایک ماہ کے اندر دفترِخارجہ میں واپس بھیجنا ہوتا ہے۔ سائفر ایسا خط ہوتاہے جسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت پبلک نہیں کیا جاسکتا۔ سائفر کی یہ کاپی 7 مارچ 2022ء کو وزیرِاعظم ہاؤس پہنچی۔

آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت اگر قومی اسمبلی کے 172 ارکان تحریکِ عدم اعتماد میں ووٹ ڈال دیں تو وزیرِاعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ 8 مارچ 2022ء کو اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں (PDM) اور پیپلزپارٹی نے عمران خاں کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی۔ اُس وقت تک عمران خاں کی اتحادی جماعتیں ایم کیوایم، بی اے پی اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتیں تحریکِ انصاف کے رویے سے نالاں ہوچکی تھیں۔ اِس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا دستِ شفقت بھی ہٹ چکا تھا۔ اِس لیے عمران خاں کو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہوچلا تھا۔ جب 7 مارچ کو سائفر کی کاپی وزیرِاعظم ہاؤس پہنچی تو اُنہوں نے اسے اپنی حکومت بچانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

27 مارچ 2022ء کو اُنہوں نے اسلام آباد میں ایک بڑے جلسہ   عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر ہوامیں لہراتے ہوئے کہا کہ بیرونِ ملک سے اُن کی حکومت گرانے کی سازش ہورہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں”لکھ کر دھمکی دی گئی ہے اور اُن کے خلاف آنے والی تحریکِ عدم اعتماد کا تعلق بھی اسی دھمکی آمیزخط سے ہے”۔ بعدازاں ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں وزیرِاعظم کے پرنسپل اعظم خاں وزیرِاعظم کو ایک میٹنگ بلانے کا مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اِس میٹنگ کے منٹس خود تیار کریں گے جس میں اپنی مرضی کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

اِسی آڈیو میں عمران خاں کہتے ہیں”آؤ! اِس سے کھیلتے ہیں”۔ اعظم خاں کے مشورے پر بلائی جانے والی میٹنگ میں وزیرِخارجہ شاہ محمودقریشی اور اسدعمر شریک ہوئے جس میں تمام منصوبہ بندی کی گئی۔ اِس لیک آڈیو میں عمران خاں کی آواز کو واضح طور پر سُنا جا سکتاہے “اچھا! اب ہم نے صرف کھیلناہے، نام نہیں لینا امریکہ کا، بس صرف کھیلنا ہے”۔ 27 مارچ کے جلسہئی عام میں عمران خاں نے تو سائفر سے کھیل لیا لیکن شاید اُنہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ اِس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا۔ عمران خاں کے اِس بیان سے پاکستان مخالف کئی ریاستوں نے فائدہ اُٹھایا۔

28 مارچ کو امریکی ناظم الامور نے سائفرپر عمران خاں کے بیان سے بریت کا اظہار کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار کو واٹس ایپ پیغام بھیجاجس میں یہ درخواست کی گئی کہ وزیرِخارجہ اور سیکرٹری خارجہ وہ سائفر اُن کے ساتھ شیئر کریں جس میں امریکی مداخلت کے متعلق بات کہی گئی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہاگیا کہ اسلام آباد کے جلسہئی عام میں دیے گئے بیان کو امریکی دارالحکومت میں سچا نہیں سمجھا جارہا۔ وزیرِخارجہ شاہ محمودقریشی نے دفترِخارجہ کے افسران کو ہدایت کی کہ کسی کے ساتھ بھی کوئی دستاویز شیئر نہ کی جائے۔

عمران خاں نے اِس حوالے سے اپنی لیک ہونے والی آڈیوز کو درست تسلیم کیاجو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ 10 اپریل 2022ء کو تحریکِ عدم کی کامیابی کے بعد میاں شہبازشریف وزیرِاعظم بن گئے۔ اُنہوں نے قومی سلامتی کمیٹی میں سائفر معاملے پر اجلاس بلایاجس میں یہ طے ہوا کہ سائفر میں کسی سازش کا ذکر تک نہیں۔ اِس سے پہلے عمران خاں بھی اپنے دَورِحکومت میں اِسی معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلاچکے تھے جس کے اعلامیے میں بھی کسی امریکی سازش کا ذکر نہیں تھا لیکن حکومت چھن جانے کے بعد خاں صاحب اپنے ہر جلسے میں امریکی سازش کا راگ الاپتے ہوئے کہتے رہے “ہم کوئی غلام ہیں”۔ بعدازاں یہی تحریکِ انصاف کا بیانیہ بنا لیکن حسبِ عادت عمران خاں نے یوٹرن لیتے ہوئے امریکہ کو اِس سازش سے مبرّا قراردیا اور اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو اِس سازش کا ذمہ دار قراردیا۔

سائفر کی تینوں کاپیاں تومقررہ وقت میں دفترِخارجہ پہنچ گئیں لیکن سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خاں کے مطابق جب اُنہوں نے عمران خاں سے چوتھی کاپی کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے کہا کہ وہ تو گُم ہوگئی۔ جب وزیرِاعظم کو بھیجا گیا سائفر دفترِخارجہ کو موصول نہیں ہوا تو یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں اِس کا کوڈعیاں تو نہیں ہوگیا یا یہ سائفر کسی دوسرے ملک کے ہاتھ تو نہیں لگ گیا؟ 10 اگست 2023ء کو یہ خدشہ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب “انٹرسیپٹ” نامی امریکی نیوزویب سائٹ کی جانب سے اِس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شائع کیاگیا۔ ظاہرہے کہ جب اِس خفیہ مراسلے کی کاپی عمران خاں سے گُم ہوئی تو اُس کے مبینہ متن کے پبلش ہونے کی ذمہ داری بھی اُنہی پر عائد ہوتی ہے۔

اعظم خاں نے اپنے اقراری بیان میں کہا کہ اسلام آباد کے جلسے سے قبل اُس نے عمران خاں کو مشورہ دیاتھا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے جسے پبلک کیا جاسکتا ہے نہ عوام میں اِس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن خاں صاحب کی ضد تھی کہ وہ مظلوم بن کر سائفر کو “وکٹم کارڈ”کے طور پر عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ سائفر کیس کی تحقیقات کے دوران FIA کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سیکرٹری خارجہ نے کہا “میں 27 مارچ 2022ء کو الیکٹرانک میڈیا پر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ عمران خاں اور شاہ محمودقریشی عوام سے خطاب کررہے ہیں اور اپنے سیاسی وذاتی فائدے کیلئے موصول ہونے والے خط کا حوالہ دے رہے ہیں اور یہ خیال تک نہ کیاگیا کہ ریاست کا پورا سائفر سکیورٹی سسٹم اور بیرونِ ملک پاکستانی مشن کا خفیہ مواصلاتی طریقہ داؤ پر لگ گیا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب سائفر معاملے پر عمران خاں اور شاہ محمودقریشی جیل میں ہیں اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت میں یہ کیس جاری ہے۔ کیس چونکہ عدالت میں ہے اِس لیے اِس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں۔ ویسے بھی اِس کیس کا فیصلہ آنے پر دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply