سہیل وڑائچ بمقابلہ عرفان صدیقی/نجم ولی خان

یہ کسی ذاتی جھگڑے یا جائیداد کی نہیں دو دانشوروں کی لڑائی ہے سو یہ ایک نظرئیے اور فکر کی لڑائی ہے۔ یہ ایک سوال کی لڑائی ہے کہ کیا نواز شریف کو عمران خان کو معاف کر دینا چاہیے۔ اگر عمران خان نے نواز شریف کا کوئی ذاتی نقصان کیا ہے تو یہ رب العزت سے لے کر ریاست کا قانون تک یہ کہتا ہے کہ اس پر نواز شریف کو معاف کر دینے یا بدلہ لینے کا برابر کا حق ہے لیکن اگر ریاست کا نقصان کیا ہے تو پھر یہ اختیار نواز شریف ہی نہیں کسی جج، جرنیل اور آپ جیسے تگڑے جرنلسٹ کے پا س بھی نہیں۔ ہم سیاست اور معاشرت کے طاقتور ملزموں کو معاف کر تے اور کرواتے رہیں گے تو کبھی سیاسی اور معاشرتی اصلاح نہیں کر سکیں گے۔مشورہ ہے کہ نواز شریف، عمران خان کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھائیں، چلیں، پہلے ماضی کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو شوکت خانم کے لئے قیمتی زمین اور بھاری عطیات دے کر بھی دیکھ لیا، انہوں نے مولانا فضل الرحمان ہی نہیں اپنی پارٹی کے لوگوں کی مخالفت کر کے عمران خان کو خیبرپختونخوا کی حکومت دے کر بھی دیکھ لیا۔ اس کے زخمی ہونے پر عیادت کر کے اور اس کے پیاروں کے مرنے پر ذاتی تعزیت کر کے بھی دیکھ لیا۔ سیاسی مخالف کو عمران خان صاحب، عمران خان صاحب کہہ، کہہ کے بھی دیکھ لیا توکیا ملا، کیا یہ مفاہمت کی انتہا نہیں تھی، ملکی تباہی ایک طرف،جواب میں ہر وہ سیاسی اور معاشرتی غلاظت ملی جس کا تصور کیا جا سکتا تھا۔پہلے دھرنوں کی مکروہ سازش ہوئی، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نااہلی ملی، جب عمران خان وزیراعظم بنا تونواز شریف ہی نہیں پورے خاندان کو جیل ملی۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک پابند سلاسل باپ کے سامنے اس کی بیٹی کی گرفتاری کا شرمناک اقدام کیا گیا۔ بھائی، بھابھی، بھتیجا اور کوئی ساتھی، کون تھا جسے چھوڑا گیا، آہ، جان سے پیاری بیوی بستر مرگ پر تھی تو حال تک پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ عمران خان کا دور نواز شریف کے لئے پرویز مشرف کے دور سے بدترین تھا مگر اس کے باوجود نواز شریف جب وطن واپس لوٹے، مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کیا تو عمران خان کا نام تک نہ لیا،اس عمران خان کا، جس نے امریکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وطن واپس جا کے جیل سے تمام سہولیات واپس لے لے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں آپ کی دانش کا قائل بھی ہوں اور معترف بھی مگر آپ سے پہلے میں حکیم سعید، ڈاکٹراسرار احمد اورعبدالستار ایدھی سے اتفاق کرتا ہوں اور ڈرتا ہوں، ہاں، آپ سے اس حد متفق ہوں کہ عمران خان کے ساتھ کسی قسم کا انتقام نہیں لینا چاہئے لیکن کیا ان عدالتوں سے بھی اس لاڈلے کے لئے انصاف نہ مانگیں جن کے جج کئی کئی دن اس کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ریلیف لینے آئے، جہاں سے بلینکٹ بیلز ملتی ہیں، جن میں ججوں کے دروازے اس کے لئے کھلتے ہیں، جہاں لانے کے لئے مرسیڈیزیں بھیجی جاتی ہیں، جیل سے نکال کر ریسٹ ہاؤسز میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے لئے بیرکیں توڑ کے کھلی کی جاتی ہیں تاکہ واک کر سکے، ہوم جم پہنچانے کے احکامات ہوتے ہیں۔ہمیں بہت پریکٹیکل ہو کے سوال کا جواب دینا ہوگا۔ کیا عمران خان، نوازشریف کی عدم مفاہمت کی وجہ سے جیل میں ہے، نہیں، وہ جیل میں اس کام کے کرنے پر ہے جس کا خواب ستر برس سے انڈیا دیکھ رہا تھا۔ سہیل بھائی وسیع المطالعہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے سقوط ڈھاکہ کا ایکشن ری پلے کیا ہے مگر انہوں نے نو مئی کے واقعات کو سپریم کورٹ پر حملے سے ملا دیا ہے، میں یہ پڑھنے کا مشورہ بھی نہیں دے سکتا کہ ایک جج اس وقت کس طرح پارلیمنٹ کو روندنے کے لئے فلور کراسنگ جیسے گند کو بحال کر رہا تھا اور اتفاق کرتا ہوں کہ وہ احتجاج نہیں ہونا چاہئے تھا مگر نواز شریف پر حملہ آوروں کو پارٹی سے نہ نکالنے کی چارج شیٹ تب ہوتی جب ذمے داران اختر رسول ہوں میاں منیر ہوں یا طارق عزیز مرحوم، وہ نواز لیگ میں رہے ہوتے۔ وہ سب چوہدری پرویز الٰہی کی بغاوت کا حصہ بن گئے تھے۔ میں نے پہلے لکھا تھا کہ عمران خان صرف نواز شریف کا ملزم نہیں کہ وہ اسے معاف کر دے، وہ ریاست اور فوج کا اس سے کہیں بڑا ملزم ہے مگر بات عادل راجاؤں اور حیدر مہدیوں تک محدود نہیں۔بلاخوف تردید، عمران خان اور اس کا انتہا پسند ٹولہ مجھ سمیت ہر اس شخص کا مجرم ہے جو اس سے اتفاق نہیں رکھتا تھا اور اس میں آپ بھی شامل تھے۔ کیا آپ اپنی ظاہر کی ہوئی کسی بھی آزادانہ رائے کے بعد ان کے فالوورز کی طرف سے ملنے والے غلیظ رپلائیز پڑھ کے اپنی والدہ، بہن، بیوی یا بیٹی کے ساتھ نظریں ملا سکتے ہیں، کیا اس گندگی کو مفاہمت کے نام پرراستہ دیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ مقدمہ لڑنے کے بعد آپ کی تصویر ان پروفیشنل صحافیوں کی تصویروں سے نکل گئی ہے جنہیں یہ کرپٹ اور لفافہ کہتے ہیں۔ میرا سوال بہت واضح اور دوٹوک ہے کہ کیا جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاوس اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے تک کونہ چھوڑنے والوں سے مفاہمت کر کے بھارت جیسے مکروہ دشمن کے مقابلے میں دفاع کی ضمانت قومی فوج کو ملک سے نکال دیا جائے، ہندوستان کو اسرائیل کی طرح کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ لاہور کوغزہ بنا دے۔ کیا ہم نے صرف اور صرف اختلاف رائے پر جو غلیظ اور گندی گالیاں کھائی ہیں نہ صر ف ان کے لئے پھر تیار ہوجائیں بلکہ اپنے گھروں پر ان بے ہودہ جتھوں کے حملوں کے لئے بھی، جن کی یہ دھمکیاں دیا کرتے تھے اور جس طرح انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کئے، چلیں، آپ کی نیک نیتی پر شک نہیں کرتے مگر جس کی معافی اورمفاہمت کا مقدمہ آپ لڑ رہے ہیں اس نے کسی شرمندگی کسی ندامت کا مظاہرہ کیا، کیا براہ راست یا بالواسطہ کوئی معافی مانگی؟ کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوبارہ سب یہ نہیں کرے گا، کیا آپ سمیت کوئی اس کی ضمانت دے سکتا ہے۔ وہ کون سا سیاسی، ریاستی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی نوعیت کا گنا ہ ہے جس کا الزام خانصاحب پر نہیں ہے۔ اخلاقی نوعیت کی واہیاتیوں کو ہی جمع کر لیجئے تو کوئی غیرت مند، شرم والا اس کا مقدمہ کیسے لڑ سکتا ہے لیکن اگر آپ خانصاحب سے بہر صورت مفاہمت کروانا چاہتے ہیں تو پھر ہر جیل میں بند ہر مجرم سے مفاہمت کروا دیجئے۔ انصاف اور احتساب کے لفظوں کو آگ لگا دیجئے۔ آپ چاہتے ہیں کہ اس سانپ کو پھر دودھ پلا دیا جائے جس نے ہرکسی کو ڈسا، ہر طرف زہر پھیلادیا۔ہم نے کچھ عرصے بعد مر جانا ہے مگر اس دھرتی پر ہمارے بچوں نے رہنا ہے۔ ہمارے بچے کون سے خانصاحب کے بچوں کی طرح امریکا، برطانیہ میں پلتے ہیں۔مان لیجئے، ہمیں، انہیں عمران خان کا پاکستان دے کر جانے کا ناقابل معافی گناہ نہیں کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply