میاں رضا ربانی کا کمزور حافظہ-1/عامر حسینی

کہتے ہیں کہ نالائق شاگرد اپنے لائق اساتذہ کی لیاقت کو گہنا دیتے ہیں ۔
جمہوری جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادت کو اتنا نیچا آمریت اور اسٹبلشمنٹ نہیں دکھا سکی جتنا اسے شہری تعلیم یافتہ مڈل کلاس سے شامل ہونے والے ایسے اشراف دانشوروں نے پہنچایا جو سوڈو انٹلیکچوئل ازم کی بیماری کو انقلابیت خیال کرتے ہیں ۔

ابھی ہم چوہدری اعتزاز احسن اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کی اس بیماری سے پی پی پی کی قیادت اور اس کی جمہوری جدوجہد کو پہنچنے والے نقصان کے صدمے جھیل رہے تھے کہ ایک اور اسی بیماری کا شکار رضا ربانی نے ہمیں تازہ صدمے سے دوچار کردیا۔

روزنامہ ڈان لاہور کی اتوار 6 نومبر 2022ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وہ فرماتے ہیں:
“تمام سیاسی جماعتیں ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں اور اُسے اِس مقصد کے لیے آئین سے انحراف کرنے کی اجازت دے دیتی ہیں”

روزنامہ ڈان کے رپورٹر نے واوین میں اُن کے بیان کو درج کرتے ہوئے ہمیں یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے اس موقعہ پر یہ اعتراف بھی کیا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھنے اور اُسے آئین کی خلاف ورزی کی اجازت دینے میں پیپلزپارٹی کو بھی کوئی استثناء حاصل نہیں ہے۔

میاں رضا ربانی کا یہ دعویٰ محل نظر ہے اور یہ یا تو پاکستان کے لبرل اشراف زادوں کا پروپیگنڈا ہے یا اُسی اسٹبلشمنٹ کی گھڑی ہوئی کہانی ہے جو جب جب آمریت نافذ کرتی گئی تب تب جمہوری قوتوں نے انھیں اپنی انتھک جدوجہد سے اقتدار سے باہر کیا تو اُس نے اپنے کرائے کے لکھاریوں کو جمہوری قوتوں کی کامیابی کو بھی اسٹبلشمنٹ سے ملی بھگت کا نتیجہ قرار دے دیا ۔

آئیں ہم مسلم لیگ نواز کے میڈیا کیمپ کے پروپیگنڈے سے تعمیر جمہوری انقلاب کے مہاتما رضا ربانی کے اس دعوے کا پاکستان میں جمہوری سیاست کی تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیں:
پاکستان میں آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے قیام کی سب سے بڑی اور موثر ترین تحریک 1968ء میں شروع ہوئی تھی ۔

متحدہ اپوزیشن
Cobined Of Opposition
اس تحریک کا ایک مرکز کمبائنڈ اپوزیشن اتحاد تھا جو 1958ء سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کررہا تھا ۔ اس ہی نے محترمہ فاطمہ جناح کو آمر ایوب خان کے خلاف صدارتی امیدوار بنایا تھا۔
میاں رضا ربانی اسٹبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کو جس یک خطی رنگ کے ساتھ واحد حقیقی اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد کا درجہ دینے کا ڈرامہ کررہے ہیں، اُس کے مطابق تو کمبائینڈ آف اپوزیشن الائنسس کو نہ تو بنیادی جمہوری بلدیاتی نظام کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تھا ۔ نہ ہی 1964ء کے ایوب خان کے بنائے آئین کے تحت ہوئے صدارتی انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تھا۔
متحدہ اپوزیشن نے ستمبر 1964ء میں صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطم جناح کو اپنا امیدوار بنایا ۔ مشترکہ اپوزیشن نے اپنا نو نکاتی منشور پیش کیا جن میں حق بالغ رائے دہی، 1962ء کے آئین کو اور جمہوری بنانا، براہ راست انتخابات کی بحالی جیسے نکات شامل تھے ۔

اُن انتخابات کے دوران نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا عبدالحمید بھاشانی جو محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار بننے کے حق میں تھے اچانک سے خاموش ہوکر بیٹھ گئے اور اُن پر الزامات لگے کہ انھوں نے چین کے کہنے پر ایوب خان کے حق میں فیصلہ دیا اور اُن پر ایوب خان سے رشوت لینے کا الزام بھی لگا ۔ اور اُن کا یہی اقدام بالآخر نیپ ولی خان اور نیپ بھاشانی میں نیپ کی تقسیم کی شکل میں نکلا ۔

صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایوب خان اور فاطمہ جناح ایک دن میں مختلف مقامات بی ڈی کونسلرز کے اجتماعات سے خطاب کرتے تھے ۔ ایوب خان کی اپنی تقریر تو پھیکی، اعداد وشمار سے بھری ہوتی تھی لیکن اُن کے نوجوان وزیر زوالفقار علی بھٹو کی جذباتی تقریریں ایوبی سٹیج کو کچھ رونق بخش رہی تھیں ۔

محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف انتخابی مہم کے دوران جن سیاسی اجتماع سے خطاب کررہی تھیں اس دوران کی تقریروں میں ایک بڑا بدلاؤ دیکھنے کو ملا تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان، اُن کے خاندان کے اراکین سب کے سب پر ایسے تنقیدی حملے کیے جو زاتی تنقید سے کہیں آگے بڑھ گئے تھے ۔

ستمبر 1964ء کو مغربی پاکستان میں ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے جہاں پر ایوب خان پر ذاتی الزام تراشی کی بھرمار کردی وہیں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو
بیوڑا/بلا کا مئے نوش /رند خرابات قرار دیا سو دیا لیکن ساتھ ہی انھیں “عورت باز/ زانی بھی قرار دے ڈالا ۔
‘The Opposition Leader Miss Fatima Jinnah is coming out as a bitter critic of everything that smacks of a dictatorial stamp on it ۔ from the personal traits of Ayub Khan to his son’s alleged abuse of power for strengthening his ‘Gandhara Motors’ to the general character of Zulfikar Ali Bhutto whom she recently dubbed as ‘inebriate and a philanderer.’
See daily Dawn Karachi, September 15, 1964

ایوب خان محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے ذاتی الزام تراشی پر مبنی تقریروں سے اسقدر غصے میں آئے کہ انھوں نے نومبر 1964ء میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فاطمہ جناح پر غیر فطری زندگی گزارنے اور اُن کے اردگرد اکٹھے سیاسی رہنماؤں کو “جنسی بے راہرو” قرار دے ڈالا ۔
Even Ayub stooped below his usual level of decorum when, at a press conference in Lahore, he exclaimed that Miss Jinnah has been leading an ‘unnatural’ life (obviously a reference to her spinsterhood) and was surrounded by ‘perverts.’

میں نے ستمبر سے نومبر 1964ء میں لاہور اور کراچی سے شائع ہونے والے ممتاز قومی روزناموں کے آرکائیوز کو کھنگال مارا ۔ اُن میں مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اخلاقیات سے ہٹ کر نیچ اور گھٹیا الزام تراشی کا سُراغ نہ مل سکا ۔ لیکن آج اُن کے دشمن ایوب خان کے لاہور پریس کانفرنس میں کہے گھٹیا الزامات کو بھٹو سے منسوب کردیتے ہیں اور اس جھوٹ کو ناقابل تردید سچ بتاکر بار بار دوہراتے ہیں جبکہ کوئی یہ زکر نہیں کرتا کہ خود محترمہ فاطمہ جناح نے زوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کیا کہا تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں کنونشن لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری تھے اور ستمبر تا نومبر کے اخبارات کی فائلوں میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ان کے خطابات اور پریس کانفرنسز میں ایوب حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اقدامات بارے تذکرہ ہوا کرتا تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے موچی دروازے لاہور اور نشتر پارک کراچی میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ معاہدہ تاشقند پر اختلاف سے پہلے وہ “ایوب شاہی” کے ہرکارے تھے لیکن اب وہ ایوب شاہی کو پاؤں کی ٹھوکر سے دور دھتکار چکے ہیں ۔

19 نومبر 1964ء کو بی ڈی ممبرز کے انتخابات مکمل ہوگئے اور کنونشن لیگ نے 80 فیصد اور متحدہ اپوزیشن نے 90 فیصد بی ڈی ممبرز کی جیت کے دعوے کیے۔

دو جنوری 1965ء میں 78076 بی ڈی ممبرز نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے ۔ محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری اعلان کے مطابق 28736 ووٹ اور ایوب خان کو 49627 ووٹ پڑے ۔
اس بارے میں دو رائے نہیں ہیں کہ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کو ریاستی مشینری کے جبر کی مدد سے بدترین دھاندلی کرکے ہرایا گیا تھا وگرنہ جیت فاطمہ جناح ہی گئی تھیں ۔

اب میں میاں رضا ربانی سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ کیسے کہتے ہیں کہ پاکستان کی ساری جمہوری سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے لیے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھا اور آمروں کو اس مقصد کے لیے آئین سے کھیلنے کی اجازت دی؟
کیا 1965ء کے صدارتی انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کی جماعتوں نے ایسا کیا تھا؟
متحدہ اپوزیشن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا تھا اور اپنے 9 نکاتی پروگرام کے لیے جمہوری جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔
ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے اپنی جدوجہد کو نو ستمبر 1965ء کو وقتی طور پر پاک ۔ بھارت جنگ کے دوران معطل کردیا تھا ۔

سترہ روز بعد جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اپیل پر دونوں ممالک نے جنگ بندی کی اور سوویت یونین کی ثالثی میں پاک۔بھارت مذاکرات شروع ہوئے اور معاہدہ تاشقند کی طرف دونوں ریاستیں بڑھیں تو ایوب خان خان کے وزیر خارجہ زوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ خبریں شایع ہونے لگیں کہ ایوب کی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو جنگ بندی کے حامی نہیں ہیں اور وہ معاہدہ تاشقند کے بھی خلاف ہیں جو 5 جنوری 1966ء کو تاشقند میں ہوا۔
لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اعلانیہ ان خبروں کی نہ تردید کی نہ تصدیق کی ۔

ابھی ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کی کابینہ سے استعفا نہیں دیا تھا تب بھی متحدہ اپوزیشن نے معاہدہ تاشقند کو مسترد کردیا اور 13 جنوری کو مشرقی و مغربی پاکستان میں متحدہ اپوزیشن نے معاہدے کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے ۔
اُس وقت لاہور، کراچی سمیت ہر چھوٹے بڑے ٹاؤن میں ایوب خان پر الزام لگ رہا تھا کہ انھوں نے میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی ۔
22 جنوری 1966ء کو وہ لاہور پہنچے تو عوام نے اُن کا والہانہ استقبال کیا ۔

22 جنوری 1966ء لاہور میں زوالفقار علی بھٹو کی آمد کے دن عوام میں اُن کے والہانہ استقبال کے بارے میں 23 جنوری 1966ء کے اخبارات میں شہ سرخیاں شائع ہوئیں اور کئی ایک اخبارات نے اسے “ایک نئے لیڈر کا جنم” کا قرار دیا۔
29 جنوری 1966ء کو ایوب خان نے زوالفقار علی بھٹو سے اپنے اختلافات کی تردید کی ۔

مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ مجیب الرحمان نے ایوب خان کے خلاف سخت جارحانہ رویہ اختیار کرلیا تھا اور 15 جنوری 1966ء کو انھوں نے عوامی لیگ کے نئے سیاسی پروگرام کا اعلان کردیا جو چھے نکات پر مشتمل تھا ۔
مئی 1966ء کو شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرلیا گیا۔
7 جون 1966ء کو عوامی لیگ نے مشرقی بنگال میں عام ہڑتال کی ۔

17 جون 1966ء کو یعنی معاہدہ تاشقند کے 6 ماہ بعد زوالفقار علی بھٹو اپنی علالت کا بہانہ بناکر کابینہ سے رخصت لے لی ۔ اور 22 جون 1966ء کو انھوں نے کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور پہلی بار ایوب خان سے اپنے اختلافات کا کھل کر اعلان کیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو 1963 میں وزیر خارجہ بنے تھے ۔

اس دوران اُن کی کوششوں سے پاک۔چین دوستی کا آغاز ہوا اور انھی کی کوششوں سے چین اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ا  اا پریل 1964ء اور جولائی 1965 میں ایفرو ایشیا کی جکارتہ اور نائجیریا میں ہونے والی کانفرنسوں میں پاکستانی وفد کی قیادت کی اور اسی سال اقوام متحدہ کے 20ویں سیشن میں وہ پاکستان کی قیادت کرنے گئے ۔ ان سب بڑے انٹرنیشنل فورمز پر اُن کی جذبات اور دلائل سے بھرپور تقریروں نے انھیں مغربی پاکستان کی عوام میں بے پناہ مقبولیت دلائی تھی ۔ اور اس دوران بھارت کی جانب سے غیر اعلانیہ ایٹمی پروگرام کے جواب میں انھوں نے جو تقاریر کیں اُن سے عوام میں اُن کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے تھے۔ وہ مغربی پاکستان میں مقبول ترین محب وطن پاکستانی لیڈر اور ھیرو بن کر ابھرے تھے ۔
22 جون 1966ء کو ایوب کی کابینہ سے استعفا کے وقت وہ عوامی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو رہے تھے ۔

کیا میاں رضا ربانی ہمیں بتاسکتے ہیں کہ 22 جون 1966ء کو ایوب کی کابینہ سے استعفا کے وقت اُن کی عوامی مقبولیت اور ھیرو کا مقام کیا آمر ایوب خان اور اسٹبلشمنٹ کا ودیعت کردہ تھا یا اُن کا اپنا حاصل کیا ہوا تھا؟
زوالفقار علی بھٹو نے استعفے کے بعد جون 1966ء سے ستمبر 1966ء تک لاہور اور کراچی کے درمیان کافی دورے کیے ۔ وہ لاہور سے کراچی تک بعذریعہ ٹرین گئے اور ہر اسٹیشن پر اُن کا قومی ھیرو کے استقبال ہوا ۔
20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 1966ء انھوں نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا ۔ وہ اس دوران شیخ مجیب الرحمان سے ملے اور شیخ مجیب الرحمان کو انھوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔
اپنے استعفے کے 21 ماہ بعد 30 نومبر۔ یکم دسمبر 1967 میں انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنائی۔

اب یہاں پر ہم میاں رضا ربانی سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قومی ہیرو بننے اور پی پی پی کی تشکیل کے لیے انھو‍ ں  نے اسٹبلشمنٹ کا سہارا لیا؟
کیا اُس زمانے میں متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں بشمول عوامی لیگ اقتدار کے لیے ایوب رجیم اور اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی تھیں؟
یقینی بات ہے کہ نہیں تو پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت پسند جماعتوں نے اقتدار کے لیے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھا اور اس کے لیے اسٹبلشمنٹ کو آئین سے کھلواڑ کی اجازت دی؟

Advertisements
julia rana solicitors

میاں رضا ربانی شارٹ میموری کے سہارے اور طویل جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں چند ایک سیاسی کمزوریوں کو بنیاد بناکر اپنی اور دوسری جمہوری سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کی جدوجہد پر کیسے پانی پھیر سکتے ہیں؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply