• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا اور پاکستانی عوام کے مغالطے۔۔عامر کاکازئی

کرونا اور پاکستانی عوام کے مغالطے۔۔عامر کاکازئی

ہم پاکستانی سچائی کی تلخ حقیقت سے بچنے کے لیےآئی ہوئی  مصیبت کو یا تو کسی اور کی سازش قرار دےکر اس پر الزام لگا دیتے ہیں، یا پھر اس کے وجود سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں۔ ملالہ کا کیس ہو یا پھر پولیو کا مسئلہ، ہم نے ہمیشہ اسے کافروں کی سازش قرار دیا۔ یہ ہی حال اس بار کرونا نامی وائرس کے ساتھ ہوا۔ ہم نے اس بار بھی وبا کو سیریس لینے کی بجاۓ سازش کہہ کر اس کی حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا۔

جب سے لاک ڈاؤن ختم ہوا ہے، کرونا تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی کرونا کی حقیقت ماننے سے انکاری ہے۔ تقریباً تین دن سے ہمارے قریبی جاننے والوں میں کرونا کے ٹیسٹ پوزیٹو آنے شروع ہو گئے  ہیں۔ اس وقت تقریباً سو سے زیادہ جاننے والوں اور ان کی فیملی والے کرونا پوزیٹو ہیں۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے سے پہلے دور دور تک ہم نے کہیں بھی اس بیماری کا نام نہیں سنا تھا۔ کل ایک قریبی جاننے والے وفات پا گئے، جن کی عمر ساٹھ سال سے اوپر تھی ، آج پنڈی سے خبر آئی کہ ایک نوجوان جو بمشکل پینتیس سال کا ہو گا، وہ بھی کرونا کا شکار ہو کر مالکِ حقیقی سے جا ملا ۔ یہ تصور مکمل غلط ہے کہ کرونا صرف عمر رسیدہ لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ پشاور کے ایک مشہور بزنس مین کی پوری فیملی اس وقت قرنطینہ میں کرونا سے لڑ رہی ہے۔ جبکہ پشاور کے ایک بہت ہی مشہور سیاست دان کا بھی کرونا  ٹیسٹ پوزیٹو آیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ جن کے عزیز کی اس بیماری کی وجہ سے انتقال ہوتا ہے، وہ اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کو یہ بتانے سے جھجکتے ہیں کہ اسے کرونا تھا۔ جب وجہ پوچھی جاۓ تو وجہ ہارٹ اٹیک بتائی جا رہی ہے۔ جس سے تعزیت کے لیے آنے والوں کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ پاکستانی کرونا کو کوئی ایڈز جیسی بیماری سمجھ رہے ہیں کہ جس کے لگنے سے شرمندگی محسوس ہو۔ اسی طرح اگر کسی میں کرونا کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو اوّل تو وہ مریض کرونا کے ٹیسٹ کروانے سے تذبذب کا مظاہرہ کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے خاندان کے لوگ بھی اس حقیقت کو ماننےسے انکاری ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مریض، اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

خدا نہ کرے، مگر جو صورتِ حال نظر آ رہی ہے، اس کے پیش ِ نظر تقریباً دس دن کے اندر اندر ہمارا ملک وُوہان یا اٹلی بننے والا ہے، اللہ نہ کرے، کبھی نہ کرے کوئی بھی اپنا پیارا کھوۓ، مگر جو حالات ہیں وہ بہت ہی مشکل صورتِ حال بتا رہے ہیں۔ یاد رکھیے،چاند رات یا عید کی شاپنگ، عید پر اپنے رشتہ داروں سے ملنے جانا، کسی رشتہ دار یا دوست کو اپنے گھر عید ملنے آنے دینا، کسی میت پر جانا، یہ سب  آپ اور  آپ کی فیملی کے لیے بہت خطرناک ہے۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس وقت جو جو آپ کےگھر کا حصہ ہیں، صرف اور صرف ان کے ساتھ رہیے، کسی بھی انسان، چاہیے وہ  آپ کے ماں باپ بہن بھائی (جو گھر میں  آپ کے ساتھ نہ رہتے ہوں) یا سسرالی، ہرگز ہرگز نہ ان کے گھرجائیں ، اور نہ ان کو اپنے گھر کے اندر آنے دیجیے۔ جب تک  آپ گھر کے اندر ہیں آپ اور  آپ کی فیملی محفوظ ہے۔ اپنی اور اپنی فیملی کی زندگی بچانے کے لیے کٹھور بننا مجبوری ہے۔ کسی ضرورت کے تحت نکلتے ہیں تو ماسک، دستانے، چشمہ پہن کر نکلیے۔ کسی سے بھی ہاتھ ملانے، یا گلے ملنے کی کوشش نہ کیجیے۔یاد رکھیے کہ کرونا صرف اور صرف  آنکھ، ناک اور منہ کے ذریعہ اندر جاتا ہے، گھر سے باہر جب بھی جائیں، ہرگز ہرگز بھی ہاتھ، منہ  آنکھ یا ناک کو نہیں لگانے، نہ ہی کسی دوسرے کے قریب جانا ہے، چاہے  وہ سگی ماں (اگر ساتھ نہیں رہتی) ہی کیوں نہ ہو۔

سب رشتے داروں اور دوستوں سے فون یا فون کیمرہ کے  ذریعے عید ملیے۔ بچوں کو ایزی پیسہ کے ذریعے عید بھیج دیجیے مگر اپنی، اپنے رشتہ داروں کی اور دوستوں کی زندگی بچانے کے لیے یہ تمام۔ احتیاطی تدابیر لازمی اپنائیے

اگلے دس دن بہت خطرناک ہیں، یہ  ذہن میں رکھیے۔ ایک وقت کا کھا لیجیے، مگر زندہ رہیے۔ بھوک زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔یہ بھی یاد رکھیے کہ جو لوگ بھی یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ کرونا کی کوئی حقیقت نہیں، وہ جھوٹ بول کر  آپ کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ ان سے بچیں ۔ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی بچائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے سائے سے بھی گلشن میں جھجک جاتا ہوں
دل لرزتا ہے کہ یہ بھی کہیں صیّاد نہ ہو!

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply