کاغذات نامزدگی ،سب مایا ہے۔۔۔آصف محمود

کاغذات نامزدگی میں کی گئی تبدیلیاں اس وقت زیر بحث ہیں۔کیا ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ کاغذات نامزدگی میں یہ خوفناک تبدیلیاں کیسے واقع ہوئیں اورکیاہمیں معلوم ہے قانون سازی کے نام پر کی گئی اس واردات میں کون کون ملوث ہے؟ کیا اس واردات میں صرف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ملوث ہیں یا یہ قوم کے ساتھ کی گئی ایک اجتماعی واردات تھی جس میں حکمرانوں کی تجربہ کاری کے ساتھ ساتھ صالحین کا زہد و تقوی اور نونہالان انقلاب کا جنون بھی مکمل طور پر شریک تھے؟

کھڑے کھڑے یہ قانون سازی نہیں ہوئی۔ یہ ترمیمی مسودہ پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کو بھیجا گیا۔ یہ کمیٹی ایک طویل عرصہ اس پر غور فرماتی رہی۔ اس کمیٹی میں صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی شامل نہیں تھیں۔اس میں جے یو آئی کی نعیمہ کشور بھی تھیں۔اس میں جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ بھی تھے۔اس میں تحریک انصاف کے شفقت محمود ، شیریں مزاری اور عارف علوی بھی موجود تھے۔اس میں اعجاز الحق بھی موجود تھے۔کیا ان سب میں سے کسی ایک نے بھی اس قانون کی مخالفت کی؟ کیا کسی ایک نے بھی پریس کانفرنس کر کے قوم کو بتانے کی ضرورت محسوس کی کہ تمہارے منتخب نمائندے تمہارے ساتھ یہ واردات کر نے جا رہے ہیں؟ کیا ان میں کسی ایک کو بھی یہ توفیق ہو سکی کہ وہ اس واردات کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتا اور اسے ناکام بناتا؟

کاغذات نامزدگی میں یہ ترمیم سب نے مل کر کی۔ ترمیم سے قبل امیدواران سے کچھ سوالات پوچھے جاتے تھے۔امیدواران کو بتانا پڑتا تھا کہ وہ ٹیکس چوری میں تو ملوث نہیں، یوٹیلیٹی بلز ادا کر رکھے ہیں کہ نہیں، دوہری شہریت تو نہیں رکھتے، ان کے خلاف مقدمات تو قائم نہیں ، وہ سزا یافتہ تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔آج صالحین سے لے کر نونہالان انقلاب تک سبھی رونی سی صورت بنا کر دہائی دے رہے ہیں کہ دیکھیے کیا ظلم ہو گیا لیکن سچ یہ ہے کہ ان سوالات کو پارلیمان میں ان تمام جماعتوں نے مل کر ختم کیا ۔

درویشوں کے کمالات دیکھیے سارے سوالنامے کو اپنے دست مبارک سے کاٹ کر پھینک دینے کے بعد اب امیر جماعت قبلہ سراج الحق فرما رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے مطابق امیدواروں کی جانچ پڑتال کرے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ یہ قانون سازی خاموشی سے ہو گئی اور پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے ان عظیم نابغوں کو اس واردات کا احساس نہ ہو سکا۔جب مقدس پارلیمان میں قوم کے یہ عظیم رہنما مل جل کر یہ واردات ڈال رہے تھے الیکشن کمیشن مسلسل شور مچاتا رہا کہ آپ غلط کر رہے ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ شور صالحین کے کانوں تک پہنچ سکا نہ نونہالان انقلاب کے کانوں تک۔

الیکشن کمیشن نے انہیں بتایا کہ آرٹیکل 222 کی رو سے پارلیمان ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں آتا ہو۔الیکشن کمیشن انہیں سمجھاتا رہا کہ عالی جاہ کاغذات نامزدگی تیار کرناآپ کا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے۔الیکشن کمیشن نے انہیں یہ بھی بتایا کہ مارچ2013 میں سپریم کورٹ اس معاملے میں فیصلہ بھی دے چکی ہے اور جن کاغذات نامزدگی کو آپ تبدیل کر رہے ہیں سپریم کورٹ اس کی توثیق کر چکی ہے۔الیکشن کمیشن نے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ آرٹیکل 218 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کا شفاف طریقے سے انعقاد کرائے ، دیانت داری سے اور منصفانہ طریقے سے کرائے اور اس میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کو روکے۔الیکشن کمیشن نے ان سے یہ درخواست بھی کہ کاغذات نامزدگی میں یہ سوالات اسی لیے رکھے گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 218 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت اپنے فرائض ادا کر سکے۔

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے تو بد نیتی سے الیکشن کمیشن کی بات نہیں سنی ہو گی۔سوال یہ ہے کہ صالحین کا زہد و تقوی اور نونہالان انقلاب کی تبدیلی کہاں چلی گئی تھیں کہ وہ بھی الیکشن کمیشن کی بات نہ سن سکیں؟ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آپ نا اہل تھے اور اس قابل نہ تھے کہ پارلیمان کا حصہ بنتے یا پھر آپ بد دیانت تھے اور جانتے بوجھتے اس گندے کھیل کا حصہ بن گئے۔ یہ رہنمائی اب سراج الحق اور عمران خان خود ہی فرمائیں کہ معاملہ نا اہلی کا تھا یا بد دیانتی کا۔دعوے تو آسمانوں کو چھو رہے ہیں لیکن کارکردگی شرمناک ہے۔ حکومت نے الیکشن میں ختم نبوت کے قانون کو بدل دیا کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ جب شیخ رشید چیخا تو معلوم ہوا کیا واردات ڈال دی گئی۔اس کے بعد فتح کے علم لہرانے دوسرے آ گئے۔

جماعت اسلامی نے کہا یہ کمال تو ہمارے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب کا ہے اور جے یو آئی نے کہا مرد میدان تو حافظ حمد اللہ ہیں۔اس کے بعد حکومت نے کاغذات نامزدگی سے سوالنامہ اڑا دیا آپ سب نے دستخط کر دیے۔کیسے مان جائیں کہ آپ اس واردات کا حصہ نہیں ہیں؟ آپ کو قوم نے اسمبلی میں اس لیے نہیں بھیجا کہ آپ یہاں تشریف ہی نہ لائیں مگر تنخواہیں ساری کھا جائیں یا آپ آئیں تو صرف سیر و تفریح کے لیے اور آپ کو معلوم ہی نہ ہو آپ کس قانون پر دستخط کر رہے ہیں۔یہ غیر سنجیدگی کب تک؟ دعوے تو ایسے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے گندم کی فصل اچھی ہو جائے تو یہ بھی سراج الحق اور عمران خان کی بصیرت کی وجہ سے ممکن ہوا لیکن کارکردگی پست سے بھی بد تر۔ یہ سب مل کر کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے یہ ترامیم صرف پارلیمان کا استحقاق ہے اور ایاز صادق بھی یہی دعوی کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آج تک ہمیشہ الیکشن کمیشن ہی تھا جو کاغذات نامزدگی تیار کرتا رہا۔اگر یہ پارلیمان کا استحقاق تھا تو اب تک یہ کام الیکشن کمیشن کیوں کرتا رہا؟ یہ اگر پارلیمان کا کام تھا تو آرٹیکل 222 میں واضح طور پر کیوں لکھ دیا گیا ہے کہ پارلیمان ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہو۔کیا آرٹیکل 218 کی رو سے یہ الیکشن کمیشن کا دائرہ کار نہیں ہے؟ عجیب تماشا ہے۔ کہا جا رہا ہے یہ سب الیکشن میں تاخیر کی سازش ہے۔ کون سی تاخیر اور کاہے کی سازش ؟ الیکشن کمیشن کے نمائندے نے تو عدالت میں کہہ دیا کہ سوالنامے میں یہ سب سوال شامل کر کے نئے کاغذات نامزدگی کی تیاری کے لیے صرف 7 دن درکار ہیں۔یاروں نے اس میں الیکشن کے التواء کی سازش کہاں سے ڈھونڈ نکالی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تو کیایہ سب ایک ہی تھالی کے ہیں ۔ کوئی چٹا ہے کوئی بٹا؟سب نے دیکھا کہ قانون متحرک ہو رہا ہے۔لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ معاشرہ بیدار ہو رہا ہے۔ سوالنامہ سخت ہے کوئی جھوٹ پکڑا گیا تو نا اہل ہو جائیں گے۔ چنانچہ سب نے مل کر طے کیا کہ اس وقت آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو ختم کرنا تو ممکن نہیں البتہ ایک اور راستے سے واردات ڈال دیتے ہیں کہ باسٹھ تریسٹھ کے پیمانوں پر ہمیں پرکھنے کے لیے جو سوالات الیکشن کمیشن نے بنائے ہیں انہیں ختم کر دیتے ہیں۔ نہ سوال ہو گا نہ ہم جھوٹ بولیں گے۔اور جب ہم نے جھوٹ بولا ہی نہیں ہو گا تو ہم صادق اور امین کیسے قرار نہیں دیے جائیں گے۔جو چیز ہم سے پوچھی ہی نہیں گئی اسے چھپانے پر ہم کیسے نا اہل ہو سکتے ہیں۔ کاغذات نامزدگی میں یہ تبدیلی پارلیمان کی مشترکہ واردات ہے۔ عام آدمی پھٹی آنکھوں سے اس واردات کو دیکھ رہا ہے اور زیر لب گنگنا رہا ہے: ’’یار میں اتنا بھوکا ہوں دھوکہ بھی کھا لیتا ہوں‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply