محمود اور زُلِِف ایاز کا سیاق و سباق/ڈاکٹر حفیظ الحسن

شاعری اور تاریخ سے لگاؤ کے سبب اقبال میرے چند پسندیدہ اُردو شاعروں میں سے ہیں۔ بچپن میں اُنکی کئی غزلیں اور نظمیں سُنیں اور یاد کیں۔ اقبال کو فارسی پر خوب دسترس تھی۔ اُنکے شعروں میں فارسی تراکیب کے علاوہ فارسی قصے اور تلمیحات بھی پائی جاتی ہیں۔ اقبال نے فارسی فلسفہ اور تاریخ پڑھ رکھا تھا۔ وہ جن کو علم نہیں ، اُس زمانے میں برِ صغیر میں کئی لوگ فارسی پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے۔ اقبال کی شاعری کے حوالے سے ایک غزل بے حد دلچسپ ہے۔ “کبھی اے حقیقت ِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں” یہ غزل پاکستان اور بھارت کے کئی گلوکاروں نے اپنے اپنے انداز میں گائی ہے مگر مجھے اب تک اُستاد فرید ایاز صاحب کا ورژن زیادہ دل کو بھایا ہے۔

اس غزل میں ایک شعر تھا:
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں

اس غزل کے علاوہ اقبال کی شاعری میں زلفِ ایاز اور محمود کی تڑپ کا ذکر اور جگہوں پر بھی ملتا ہے۔ شعر کے دوسرے مصرعے کا سیاق و سباق فارسی کی ایک نظم جو سولہویں اور سترویں صدی کے شاعر زولالی خوانساری کی مثنوی میں بھی ہے، سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس نظم میں محمود، ایاز کو شراب پینے پر آمادہ اور ساتھ ہی اُسکی زلفوں اور ظاہری خوبصورتی  کی تعریف کر رہا ہے۔ نظم کے کچھ ٹکڑے ترجمے کے ساتھ ملاحظہ ہوں۔ انگریزی ترجمہ بھی آسانی کے لیے موجود ہے۔ سیمپل ملاحظہ ہو۔

“محمود، غزنوی کا سُلطان، اس نے ایک جوان غلام ایاز خریدا
محمود نے اسکے سامنے جام رکھا اور شراب اُنڈیلی
ارغوانی رنگ کی شراب، جیسے کہ دل سے کشید کی گئی ہو
اُس نے جام بھرا، ویسے جیسے اُسکے محبوب (ایاز) کے ہونٹ بھرے ہوئے تھے

ایاز کی زلفوں کے خم میں محمود خود پر قابو کھو رہا تھا

اُس نے بخشش کے بادلوں سے جام بھرا

ایاز کے چہرے کی چمک نے جام کو اتشیں سا کر دیا
اُس نے ایاز کی طرف جام بڑھایا کہ پیو

نظم طویل ہے مگر آخری شعر کچھ یوں ہیں۔

پھر اُسکی (ایاز کی) مسکان سے مُسترتوں کے چشمے پھوٹے
اُس نے سلطان کے ہاتھ سے جام لیا

اُس لمحے کے بعد ایاز محمود کا ساقی بن گیا
جس سے ساری دنیا اُسکے جمال کے نشے میں سرمست ہو گئی”

English:

Mahmud, Sultan of Ghazna, has purchased young Ayaz as a slave.
Mahmud set a cup beside him and a decanter before him
Full of burgundy wine, as if distilled from his own heart
He filled the cup with wine like his love’s ruby lips
Entangled in the curls of Ayaz, Mahmud began to lose control
He filled the cup with wine from the clouds of forgetfulness
The glow of Ayaz set the glass aflame with scintillating colors
He lifted the cup to Ayaz and bade him drink

Last part:

Then from his smile, sweetness boiled over
He took the wine-cup from the Sultan’s hand
From that moment, Ayaz was the cupbearer of Mahmud
Whose whole world became drunk with his playful grace.

ریفرنس:

Advertisements
julia rana solicitors

(Losensky, P.E., “Zulali-yi K̲h̲wānsārī”, in: Encyclopaedia of Islam, Second Edition)

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply