عصر حاضر میں راسپوٹین/عامر حسینی

پاکستان میں ہر چمکتا ٹی وی اینکر آخری تجزیے میں اپنے سیٹھ کے لیے ذلت کے کسی بھی گڑھے میں گرنے کو تیار رہتا ہے ،چاہے وہاں کتنا ہی گھپ اندھیرا اور تاریکی ہو۔ سیٹھ اگر کسی سیاست دان کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر پیش کرنے کو کہے تو وہ اسے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے راستے میں چٹان بن کر کھڑا دکھائے۔سیٹھ اگر کسی سیاست دان کو راسپوٹین بناکر پیش کرنے کو کہے تو وہ ویسا ہی پیش کرے ۔

سیٹھ غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کے اندر بنے دھڑوں میں جس دھڑے کے ساتھ ہوتا ہے اس دھڑے کے سرغنہ کو اس سیٹھ کے ملازم چمکتے دمکتے ٹی وی اینکر مجسم اصول پسند اور مجسم اخلاقیات بناکر پیش کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ نہیں ہوتے وہ دھڑے فسادی، طالع آزما، آمریت پسند، جمہوریت کے دشمن بناکر پیش کیے جاتے ہیں۔

سیٹھ کل تک جسے جمہوریت کی غیر مصلحت پسندانہ جنگ لڑنے والا سیاست دان بناکر پیش کرنے کا کہہ رہا تھا وہ آج اسے مفاہمت کا علمبردار بناکر پیش کرنے کا کہہ رہا ہے اور چمکتے دمکتے اینکرز کہتے ہیں کہ ملک کا مفاد اس میں ہے کہ جنگ لڑنے کی بات نہ کی جائے ۔سیٹھ کی ہدایات میں تغیر کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ کل جو ‘ابتذال، گراوٹ، گھٹیا پن ، غیر صحافتی روش’ کہلاتی تھی وہ آج ‘تحقیقاتی صحافت’ کہلاتی ہے ۔اور اس سے پچھلے اور بعید کل میں بھی یہی تحقیقاتی صحافت کہلاتی تھی ۔

بھٹو کی ماں ہو یا اس کی بیوی ہو یا اس کی بیٹیاں ہوں یا اس کا داماد ہو(یہاں تک کہ اس کا نواسہ ہو یا نواسی ہو) بھٹو کی ساتھی خواتین سیاست دان ہوں یا ساتھی مرد سیاست دانوں کی بیویاں ہوں، بیٹیاں ہوں یا بہنیں ہوں یا پھر ان کی کوئی جاننے والی ہو جیسے حسنہ بیگم تھیں اور یہاں تک کہ خود سابق آمر ایوب خان کی بیٹی ہو، سب کے سب کردار کشی کا نشانہ بنے۔ سب کو بدکردار ثابت کرنے کے لیے خبریں، انٹرویوز، فیچر، کالم گھڑے گئے اور اس زمانے میں سرکاری ٹی وی پر غلیظ اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور اب بھی اس کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے ۔ کیوں؟ فوری اور بنیادی وجہ تو یہ کہ اس سے بھٹو کو اخلاق باختہ اور کسی اصول و اخلاق کی پرواہ نہ کرنے والا ثابت کیا جائے اور دوسرا جو اصل وجہ ہے کہ وہ جمہوریت و مساوات و خوشحالی کے جس راستے پر قوم کو چلا کر گیا، اس راستے کو بار بار کھوٹا کیا جانے کے باوجود اس کے سیاسی وارثوں نے اس پر چلنا ترک نہیں کیا اور جب جب عوام کو تھوڑی بہت آزادی انتخاب کی ملی تو انھوں نے بھی بھٹو کا راستہ  اختیار کیا۔

غیر منتخب  ہئیت مقتدرہ کے آئینی و قانونی حدود سے باہر پھیلے ہوئے جثے کی حفاظت کرنے پر مامور سامری جادوگر بار بار مٹی کے بنے بچھڑے میدان سیاست میں لاکر رکھتی ہے اور اس میں اپنے جادو کے زور سے جان ڈالتی ہیں اور وہ خوب بولنے، چہکنے، چمکنے، گرجنے لگتا ہے اور اس کی خوب تشہیر کے سامان کیے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ اپنے جادو کے سافٹ وئیر سے جو پروگرامنگ بچھڑے میں فیڈ ہوتی ہے اس میں کہیں کسی جگہ پر خود کو اصل حکمران سمجھ لینے کا وائرس داخل ہوجاتا ہے ،بنیادی پروگرامنگ فسطائیت، مطلق العنانیت اور سب اختیارات کا منبع خود ہونے کی ہوتی ہے تو یہ پروگرامنگ اس وائرس کے داخل ہوجانے کے بعد اس پروگرامنگ کے اصل خالق کرداروں کو بھی بس اپنی خدمت پر مامور دیکھنا چاہتی ہے اور یہیں سے پروگرامنگ کے خالق کرداروں اور جس میں وہ پروگرامنگ فیڈ ہوتی کے درمیان رسا کشی شروع ہوجاتی ہے ۔

پروگرامرز اپنی فیڈ کردہ پروگرامنگ کے حامل کردار کی سرکشی کیسے برداشت کرسکتے ہیں اور ان کا غصہ، عتاب، خفگی غیض و غضب کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور ان کا ردِ عمل انتہائی شدید اس وقت ہوجاتا ہے جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے روایتی حامی حلقے میں رہنے والی عوام کی پرتیں جنھیں پروگرامرز کے حامیوں کا گڑھ خیال کیا جاتا تھا پروگرامرز کی غیرمنتخب حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے پروگرامرز کو قبضہ گیر، حملہ آور ، غاصب اور سب سے بڑھ کر عوام دشمن قرار دینے لگتے ہیں۔

پہلے ایسی انہونی ہونے میں ذرا وقت لے لیا کرتی تھیں۔ ایم آر ڈی میں شامل دائیں بازو کی جماعتیں اور ان کے سپورٹرز کی تنقید صرف اور صرف ضیاع الحق تک محدود تھی اور ان کا اثر بھی کم از کم پنجاب ، سندھ میں کراچی کے دائیں بازو سے وابستہ عوامی حلقوں پر نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ فرق پہلے پروگرامرز کے طویل عرصے کی پروگرامنگ پروجیکٹ کے مرکزی کردار نواز شریف نے مٹایا اور اسے ملیا میٹ عمران خان نے کردیا جس کے نیچے ان پروگرامرز نے سوشل میڈیا کو کردار کشی کے سب سے مہلک ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ایک ڈیجیٹل وار فئیر بریگیڈ تیار کیا گیا تھا ۔ ان میں بہت محدود اہداف کو نشانہ بنانے کی پروگرامنگ فیڈ تھی لیکن وائرس نے ان حدود کو تباہ و برباد کردیا اور وہ فری سٹائل ریسلنگ کے طرز پر نشانہ بنانے لگے۔

پروجیکٹ عمران خان تباہ نہیں ہوا بلکہ پورے کا پورا پروجیکٹ کا مین سرور ہی ہیک ہوگیا اور اس کا ہدف اس پروجیکٹ کے خالق کردار ہوگئے ہیں۔

خالق کردار غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے آئین و قانون کی حدود کے باہر پھیلے جثے کی سرجری کرنے کے ماہر کرداروں جو عوامی سیاست دان ہیں کو سرجری کی اجازت نہیں دے رہے حالانکہ وہ بتارہے ہیں کہ یہ حدود سے باہر پھیلاؤ کینسر کو اسٹیج فور پر لیجاسکتا ہے اور بہت قریب ہے لیکن خالق کردار اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جثے کا غیرقانونی و غیر آئینی پھیلاؤ اس ملک کی سرحدوں کی سلامتی کا ضامن ہے اور وہ اس میں “نظریاتی سرحدوں” کا اضافہ بھی کرتے ہیں جسے وہ ہمیشہ اپنے غیر آئینی و غیرقانونی پھیلاؤ کے جواز کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

پروگرامرز سسٹم میں گھسے ہلاکت انگیز وائرس کا خاتمہ اناڑی یا نیم ماہر پروگرامرز کے ذریعے چاہ رہے ہیں جیسے کوئی اپنے کینسر کا علاج نیم حکیم، اتائی ڈاکٹر سے کرانے کی کوشش کرے۔

انھوں نے اپنے مرض کے علاج کے لیے اس عطار کے لونڈے کو پھر سے چُن لیا ہے جس کے سبب وہ بیمار ہوئے تھے اور میر تو سادہ لوح تھے یہ سادہ لوحی سے آگے مہا حماقت اور ڈیڑھ ہشیار بننے جیسا ہے ۔

عطار کے لونڈے کے مطب میں 80ء اور 90ء کی دہائی کے ٹوٹکے اور نسخے ہیں اور ان نسخوں کے مطابق جو ادویات اور کشتے ہیں وہ زائد المیعاد ہیں جن کی اکسپائری ڈیٹ کو گزرے کم و بیش چار عشرے گزر گئے ہیں ۔ ان نسخوں کے مطابق ادویات کی پڑیاں باندھنے والے جو ہیں وہ ادویات کو  ہاون دستے میں کوٹ کر پاؤ ڈر بنانے کے فن سے بالکل نابلد ہیں کیونکہ اس فن میں یکتا ہونے کے لیے جس تربیت سے گوہر الطاف، جی ڈبلیو چودھری، قدرت اللہ شہاب، صدیق سالک، زیڈ اے سلہری، حسین حقانی گزرے تھے وہ اس سے گزرے ہی نہیں اور یہاں تک کہ جس قدر ایسی تربیت ماضی میں کامران خان، شاہین صہبائی جیسوں کو ملی تھی وہ اسے بھی نہیں پاسکے۔ یہ اناڑی نہ مکسچر ٹھیک بناتے ہیں نہ  ہی ٹنکچر ۔ یہ اناڑی تو بس نقصان ہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی حکیم اور مریض دونوں کا۔جیسے بوڑھی طوائف گھر کے سامنے چکنی مٹی گراتی ہے اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کرتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی پھسلن سے گرنے والے تماش بینوں کی ان گالیوں سے مزا لیتی ہے جس میں جنسی اعضاء کے بے ہنگم اختلاط کے دوران پیدا ہونے والی وحشت کی کیفیت کا بیان ہوتا ہے ،ایسے ہی آج کل غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے کچھ دھڑے “انٹرویوز” کے ‘وہی وہانوی اسکرپٹ’ سے پیدا شدہ لفظی ہیجان سے مزے لے رہے ہیں ۔

یہ انٹرویوز عمران خان کو راسپوٹین کی طرح جنسیت زدگی کی اسفل ترین سطح پر ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش ہیں اور راسپوٹین کی طرح ہونے اور اندر کی طرح نہ ہونے کی وجہ اسے سرد ترین سنگدل اور یار مار ثابت کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کو جس بھی کنسلٹنٹ فرم نے ایڈوکیسی کی یہ راہ سجھائی ہے وہ اندر سے یقینی طور پر خود راسپوٹین عصر سے ملی ہوئی ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply