• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فلسطینیوں کے قاتل اور قبضہ گیر کو چوما نہیں مارا جائے گا/ڈاکٹر ندیم عباس

فلسطینیوں کے قاتل اور قبضہ گیر کو چوما نہیں مارا جائے گا/ڈاکٹر ندیم عباس

غزہ پر ظلم و بربریت جاری ہے، رات تو قیامت کی تھی۔ جب تک میڈیا بلیک آوٹ نہیں کیا گیا، اس وقت تک صحافی یہ بتا رہے تھے کہ غزہ کی سڑکوں پر لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ کئی منزلہ عمارات مٹی کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں اور وہی چھت جو احساس تحفظ دیا کرتی تھی، اسی کے نیچے جانیں قربان ہوگئیں۔غاصب افواج میں یہ جرات تو پیدا نہیں ہو رہی کہ مکمل طور پر غزہ میں داخل ہو جائیں۔ ایک بار کوشش کی ہے اور اس کے انتہائی خطرناک اثرات سے اسرائیلی فوج ابھی تک نہیں نکل پا رہی۔ ابھی یہ خبریں مشہور کی جا رہی ہیں کہ امریکی کمانڈوز بھی لڑنے آئیں گے، مگر یہ خود اس قابل نہیں ہیں کہ زمینی جنگ کرسکیں۔ یہ اسرائیل کی وہ نسل نہیں، جو دوسری جنگ عظیم کی تجربہ کار تربیت ساتھ لے کر پورے یورپ سے ان کی مکمل حمایت کے ساتھ نہتے فلسطینیوں پر حملہ آور ہوتی تھی۔

اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے، اب یہ فقط اسلحہ کے زور اور تحفظ کی گارنٹی پر آئے ہیں، ساتھ میں یہ پیشہ ور فوجی بھی نہیں ہیں۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ زمینی حملے کی کمانڈ جنرل یائیر شالام کے سپرد کی گئی تھی۔ کل رات شرقی البریج میں یہ ٹینکوں کے ساتھ غزہ میں گھس گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اسے گرفتار کئے جانے کی اطلاعات آنے لگیں۔ اب یہ بات کنفرم بھی ہوگئی۔ اسرائیلی امور پر گہری نظر رکھنے والے مصری صحافی احمد موسیٰ نے بھی ذرائع کے حوالے سے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل صیب اپنے متعدد سپاہیوں کے ہمراہ جانبازوں کے پنجے میں آگئے ہیں۔ کچھ عبرانی ذرائع بھی اس خبر کی تصدیق کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے رات کا زمینی حملہ بری طرح ناکام ہوگیا۔

جس میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے۔ ایک فوجی افسر کی یہ بات بھی عبرانی سوشل میڈیا میں زیرگردش ہے کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کس سے لڑ رہے ہیں اور وہ کہاں سے نکل آتے ہیں۔ برسرپیکار مختلف مزاحمتی گروپوں نے اپنی کامیابیوں کی تفصیل بھی میڈیا سے شیئر کی ہے۔ کتائب ابو علی نے شبکہ القدس کو بتایا ہے کہ ہمارے جانبازوں نے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیلی نیوز ایجنسی والا کا کہنا ہے کہ یائیر شالام کے ساتھ غزہ میں داخل ہونے والے بٹالین 13 کے سارے سپاہی مارے جا چکے ہیں یا گرفتار ہوچکے ہیں۔ کسی سے رابطہ نہیں ہو رہا۔

اسرائیل نے غزہ کا پوری دنیا سے رابطہ کاٹ دیا ہے، اب وہاں کیا ہو رہا ہے؟کسی کے کچھ بھی علم میں نہیں ہے۔ یقیناً بہت کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیلی نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوج کی شرمناک زمینی کارکردگی بھی ہے۔ اگر آج دنیا اس بات سے آگاہ ہو جائے کہ ان کی پوری کی پوری بٹالین ہی ختم ہوگئی ہے تو اسرائیلی فوج کے ناقابل شکست ہونے کا پروپیگنڈا دم توڑ جائے گا اور ساتھ میں اربوں ڈالر کی اسلحہ ڈیلیں بھی خطرہ میں پڑ جائیں گی، جو عرب رجواڑوں اور دیگر اتحادیوں کو اسلحہ فروخت کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔

جنگ مخالف انسان ہر جگہ ہیں، پورے یورپ میں جنگ مخالف بڑی تعداد میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، مگر ظالم حکومتیں کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وائٹ ہاوس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ وائٹ ہاوس جانے والے راستوں پر کفن پہن کر لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ تمہارے فیصلوں کے نتیجے میں اہل غزہ شہید ہو رہے ہیں۔ مشہور امریکی رہنماء نکی ہیلے پریس کانفرنس کرنا چاہتی ہے، بڑی تعداد میں جنگ مخالف صحافی نعرے لگا رہے ہیں کہ نکی ہیلے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ یہ وہ آزاد آوازیں ہیں، جن کی اس غلام دنیا میں کوئی وقت نہیں ہے۔

جب دنیا کو یورپی اثر سے آزاد کیا جاتا ہے، وہ ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل باڈی نے فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی کرنے اور معصوم شہریوں کا قتل عام روکنے کے لیے قرارداد پاس کر لی ہے۔ اس قرارداد کے خلاف صرف چودہ ملکوں نے ووٹ دیا، جن میں امریکا بہادر اور اسرائیل شامل ہیں، جبکہ 45 ملک غیر جانبدار رہے۔، ان میں برطانیہ، جرمنی، بھارت اور یوکرین بھی شامل ہیں۔ یوکرین خود روس کے خلاف انسانی حقوق کی دہائی دیتا ہے اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر ایک غیر مضر سی قرارداد تک سے بھاگ جاتا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، امریکا اور انسانی حقوق کے دیگر چیمپئنز کے بارے میں تو خیر سب جانتے ہیں کہ انہیں یہ حقوق صرف اس وقت یاد آتے ہیں، جس وقت مرنے والوں کی چمڑی گوری ہو یا پھر وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں۔

ہیومن رائٹس کے فقط نعرے ہی ہیں، تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر رشید صاحب نے خوب لکھا، ایک بات یاد رکھیے کہ مغرب کے متعین انسانی حقوق صرف “ہیومن” کو مل سکتے ہیں اور ان کے نزدیک ہیومن صرف ہیومنزم کے نظریئے پر ایمان رکھنے والا انسان ہے، جیسا کہ یوکرائن کے لوگ اور صہیونی۔ لہذا کم ترین تعریف میں بھی کوئی مسلمان ان کے نزدیک ان حقوق کا اہل نہیں، جیسا کہ فلسطینی، عراقی، افغانی اور کشمیری وغیرہ، زبانی جمع خرچ اور فائلز بنانا دوسری بات ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو بھی ہیومن بنانے کے لیے مغرب مسلم حکومتوں پر پریشر ڈال کر پالیسیاں بنواتا ہے یا این جی اوز کو فنڈز دے کر ہیومنزم (لبرلزم، سیکولرزم) کی تبلیغ کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس طرح اسلام کے اپنے مبلغین ہوتے ہیں، اسی طرح این جی اوز مغربی لبرلزم کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ مغربی فنڈڈ بیانیوں کو ریزسٹ کرکے لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے۔ آخری بات ساوتھ افریقہ کے ایک رہنماء کی تقریر سن رہا تھا، اہل فلسطین کی حمایت میں ہزاروں کا مجمع جمع ہے، وہ کہہ رہے تھے کہ قبضہ گیروں سے صلح اور امن کی بات نہیں کی جاتی، ان کا منہ توڑا جاتا ہے، انہیں مارا جاتا ہے، ہرگز بھی چوما نہیں جاتا۔ نیلس منڈیلا نے بھی یہی کیا اور اہل فلسطین کو بھی آزادی کے لیے یہی کرنا چاہیئے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply