فلسطینی کیوں لڑتے ہیں؟-ڈاکٹر اختر علی سیّد

فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوئے کچھ دن گزر چکے ہیں۔ تشدد کے یہ سلسلے فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور اس تنازعے کو دیکھنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ حسبِ  سابق بے پناہ جانی اور مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اس دفعہ جانی نقصان میں اسرائیلی اور فلسطینی اموات کا تناسب پہلے سے مختلف ہے۔ ایک چیز جو اس تنازعے کے حوالے سے خاص ہے وہ اس پر کیا جانے والا وہ تبصرہ ہے جو ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگار اس معاملے پر کرتے ہیں۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اس تنازع پر ایک مرتبہ پھر تجزیوں سے بھر چکا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا اس 70 سال سے زائد پرانے تنازع کو ایک مرتبہ پھر کاروباری اور سیاسی وابستگیوں کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سب سے اہم اور قابل مشاہدہ بات یہ ہے کہ اس تنازع پر گفتگو اس کے تاریخی تناظر کو یکسر نظر انداز کر کے کی جاتی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے یہ تنازع  چند دن قبل حماس کے راکٹ حملوں سے شروع ہوا ہے۔ گنتی کے چند نشریاتی ادارے اس معاملے کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم بالعموم تمام تجزیوں کا نچوڑ یا تو تاریخی ہوتا ہے یا سیاسی اور یا اخلاقی۔ ایک بات جو   اب  کثرت سے کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حماس نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں مزید فلسطینی ہلاکتوں کا سامان کیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور منتقم مزاجی کی تاریخ ذہن میں رکھتے ہوئے اگر حماس کے حملوں کو دیکھا جائے تو یہ خود کشی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتے۔ ان حملوں کے نتیجے میں مزید فلسطینی جان سے جائیں گے، مزید فلسطینی علاقے پر قبضہ ہوگا، فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں لگیں گی اور زندگی مزید اجیرن ہوتی چلی جائے گی۔ ان حملوں سے نشانہ بننے والے اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے ہمدردوں کے بھی غصے میں اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر ایک جائز سوال کا اٹھنا لازم ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی تنظیم نے اپنے سے کہیں بڑی فوجی طاقت کے خلاف حملہ کیوں کیا ہے اور اس طرح کے حملے وہ بار بار کیوں کرتی ہے۔

اس موقع پر یہ بھی جائز طور پر سوچا جا رہا ہے کہ حماس کے ان حملوں کی پشت پناہی کون کون سی بین الاقوامی طاقتیں کر رہی ہیں۔ غزہ کے جغرافیے سے واقف یہ بات سوچ سکتے ہیں کہ حماس کے پاس اتنی بڑی تعداد میں میزائلوں اور دیگر ہتھیاروں کی موجودگی کسی بڑی طاقت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ ہتھیار تو کوئی اور طاقت فراہم کر سکتی ہے مگر ان ہتھیاروں کو چلانے والے ہاتھ بہر طور فلسطینی ہی تھے۔ لہذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ان حملوں کی سب سے بڑی ذمہ داری خود فلسطینیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اس طرح کے حملے فلسطینی بار بار کیوں کرتے ہیں؟  کیا یہ ایک مختلف نوعیت کے خود کش حملے ہیں جس میں صرف حملہ آوروں کی نہیں بلکہ معصوم شہریوں کی جان کو بھی داؤ پر لگایا جاتا ہے۔ اگر آپ نے فلسطینی پیراگلائیڈرز کو اسرائیل میں اترتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ یقیناً  اس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ خود کش حملوں کی ایک مختلف شکل ہے لیکن ایک فرق بہرحال نمایاں ہے اور وہ یہ کہ یہ حملے بنیادی طور پر مرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی نفسیاتی حیات کے لیے کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان حملوں میں اور دنیا کے مختلف خطوں میں کیے جانے والے خود کش حملوں میں کئی طرح کے فرق دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ حملے ایک سیاسی جدوجہد کا حصّہ ہیں۔ جیسا کہ حماس نے اپنے 2017 کے چارٹر میں بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق ان کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ “صیہونی پروجیکٹ کی مکمل تباہی” ہے نہ کہ یہودیوں کی۔ دنیا کے دیگر خود کش حملوں کے برعکس فلسطینی حملہ آوروں نے ان حملوں کے مقاصد اور ٹارگٹس کو بہت صاف اور واضح لفظوں میں دنیا کے سامنے بیان کیا ہے۔ انہوں نے خود کش حملوں کے لیے کبھی بھی کم عمر افراد کو استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھی طرح کے نشے کے عادی، ذہنی معذوروں اور ذہنی مریضوں کو اس جدوجہد میں شریک کیا ہے۔ فلسطینیوں اور حزب اللہ کے خودکش حملہ آور دیگر تنظیموں کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ پائے گئے ہیں۔ دیگر تنظیموں کے مقابلے میں فلسطینی تنظیمیں اور حزب اللہ ان حملہ کی  خبروں کو بھولتے بھی نہیں ہیں وہ ان کی یاد مناتے ہیں ان کی تصویریں مختلف مقامات پر آویزاں کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد کی تفصیلات بھی شائع کرتے ہیں۔ ان حملہ وروں کی سیاسی جدوجہد اور نظریات پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان حملوں میں حصہ لینے والے افراد نہ تو کم علم اور بے شعور ہیں اور نہ ذہنی طور پر معذور اور ماؤف ہیں۔

اس وقت اس حالیہ کشمکش پر ہونے والے تجزیے میں ان افراد کی رائے اور نقطہ نظر سِرے سے ناپید ہے۔ یہ سمجھدار، سیاسی طور پر باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اس طرح کی جنگ جس میں حتمی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیوں بار بار شرکت کرتے ہیں؟ ہمارے تجزیہ نگار ان افراد کو اپنی تباہی پر آمادہ اور کم عقل ثابت کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ یہ تجزیہ نگار دن رات یہ بتلاتے ہیں کہ جب دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی اعلانیہ عملی، اقتصادی اور فوجی امداد کے امکانات معدوم ہیں تو پھر فلسطینی ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کے مسائل ہمہ جہت ہیں۔ مذہبی رجحان رکھنے والوں کے لیے اپنی فرقہ وارانہ وابستگی سے آزاد ہوکر تجزیہ کرنا مشکل ہوگیا اور ان کو حماس کے حملوں میں سعودی عرب کی شکست اور ایران کی فتح دکھائی دینے لگی۔ غیر مذہبی رجحان رکھنے والوں کو ان حملوں میں بیت المقدس ذمہ دار نظر آنے لگا اور انہوں نے آخری نتیجے کے طور مذہب کو اس سارے فساد کی جڑ قرار دے کے اپنے تعصبات ظاہر کیے۔ لیکن حقیقت میں یہ سارے دانشور کسی بھی سیاسی اور فوجی کشمکش کو صرف “فتح و شکست” کے  پیمانوں سے ناپتے ہیں چونکہ فلسطینیوں کی موجودہ کشمکش اس پیمانے پر پوری نہیں اترتی اس لیے اسے سمجھنے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔

الجزائر کی جنگ آزادی کے نظریہ ساز اور سائکیٹرسٹ فرانز فینون نے تجزیے کی اس مشکل کا ایک حل پیش کیا تھا۔ فینون وہ پہلا شخص تھا جس نے ظالم اور مظلوم کے تشدد میں فرق کو واضح کر کے دکھایا تھا۔ اس نے یہ کہا تھا کہ ظالم صرف ایک زبان بولتا ہے اور وہ ہے تشدد کی زبان۔۔۔ اور وہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ بھی تشدد کی زبان ہے۔ انسانیت اور دلیل ظالم سے گفتگو کے لیے بے معنی پیمانے ہیں۔ نہ وہ مظلوم کو انسان سمجھتا ہے اور نہ اس کی دلیل اس کی سمجھ میں آتی ہے۔ گو ظالم کے پاس اپنی کارگزاری کے لیے متعدد راستے ہوتے ہیں مگر وہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے برعکس مظلوم کے پاس آپشنز محدود ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی جدوجہد میں کامیابی کو اپنے سامنے رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر زندہ رکھنے کے لیے بھی سبیل کرنا پڑتی ہے۔ ہر روز کا تشدد اور توہین مظلوموں کو بالآخر نفسیاتی طور پر مردہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ زندہ تو رہتے ہیں مگر انسان کے طور پر اپنی شناخت کو بتدریج کھوتے چلے جاتے ہیں۔ فینون کے مطابق تشدد کے ذریعے مظلوم اپنی تشکیل نو کرتے ہیں۔ ظالم یہ چاہتا ہے کہ مظلوم اپنی کمزوری اور بے بسی پر ایمان لے آئیں اور اس کو اپنی شناخت بنا لیں۔ مظلوموں کا تشدد اس شناخت کو رد کرنے کا ایک عمل ہے۔

ہمارے تجزیہ نگار جس دلیل کا سہارا لے کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دلیل طاقت کے ایوانوں سے آتی ہے اور طاقت ور کو مدد کرنے کے لیے پینترے بدلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اسرائیل کا “حق دفاع” ہے۔ مغربی میڈیا کے کسی بھی ٹاک شو میں کوئی یہ سوال نہ اٹھا سکا کہ حق دفاع طاقتور کے لیے ہوتا ہے یا کمزور کے لیے۔ اس لیے کہ دلیل گھڑنے کی فیکٹری بھی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی طرح طاقتور کی گرفت میں ہوتی ہے۔ ایسے میں مظلوم کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ نفسیاتی طور پر وہ طاقتور کی ہر دلیل کو رد کردے اور اپنے لیے صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کرے۔ یہ حق صرف اور صرف مظلوم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس نے کس کے ساتھ اشتراک عمل کرنا ہے اور کس کو نظر انداز۔۔ اور یہ  آ خری فیصلہ کرنے کا حق بھی مظلوم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ بے بسی اور ذلت کی زندگی گزارتا ہے یا ظالم کے خلاف لڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔

 7اکتوبر سے پہلے گفتگو یہ تھی کہ اسرائیل نے فلسطینی مسئلے کو کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا ہے جہاں سے اس کے باہر نکلنے کے امکانات اب کم سے کم ہو گئے ہیں لیکن فلسطینیوں میں اپنے  آپ کو تاریخ کی ڈسٹ بن میں گم ہو جانے سے بچا لیا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اس طرح مزید فلسطینی جانوں کا نقصان ہوگا۔ لیکن کیا جب وہ خاموش تھے تو ان کی جانیں, اموال اور اسباب محفوظ تھے؟

تجزیہ نگار جو فلسطین سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے ہیں جنہیں کبھی اس تشدد اور ذلت کا خود سامنا نہیں کرنا پڑا جو فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اس وقت فلسطینیوں کو دو طرح کی نصیحتوں سے نواز رہے ہیں۔ یا تو فلسطینی ایک خاموش زندگی گزاریں یا پھر جدوجہد صرف اس صورت میں کریں جب کامیابی کے امکانات ان کے لیے بہت روشن ہوں۔ لیکن فلسطینی اس نصیحت کے برعکس کرتے ہیں۔ جب تک یہ تجزیہ نگار فلسطینیوں کی جگہ پر خود کو رکھ کر نہیں سوچیں گے معاملہ نہیں سمجھ پائیں گے۔ جب تک یہ “فتح و شکست” کے گھسے پٹے اصول سے چھٹکارا نہیں پائیں گے فلسطینی جدوجہد ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی. فلسطینی اس وقت جیتنے کے لیے نہیں بلکہ معدوم ہونے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے معاملے میں بنیادی کردار ادا کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کے فیصلے اسرائیل، مغربی طاقتوں اور ان کے حلقہ بگوشوں کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ آزادی سے زیادہ خود ارادیت کی جنگ ہے۔

فلسطینیوں کو کامیابی ملتی ہے یا نہیں؟

بین الاقوامی سیاست اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟

یا اس موجودہ کشمکش کا انجام کس نتیجے پر نکلتا ہے؟  

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب بہت جائز سوال ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو اس کشمکش میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں وہ اپنا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں۔ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں کیسا کیسے کرنا چاہتے ہیں یہ آخری فیصلہ کرنے کا حق بھی بہر حال ان ہی کے پاس ہے۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں وہ اپنے اپ کو وقت کے ساتھ ساتھ دریافت کرتے چلے جائیں گے اور یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے اس ساری کشمکش کے مرکز میں کیسے رہنا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار ان کے علاؤہ اور دیا بھی کس کو جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply