• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آہ ! خواجہ شجاع عباس جو دل کو ویراں کر گیا۔۔ غیور شاہ ترمذی

آہ ! خواجہ شجاع عباس جو دل کو ویراں کر گیا۔۔ غیور شاہ ترمذی

یہ سنہ 1990ء کی دہائی کے بالکل ابتدائی سالوں کی بات ہے جب راقم طلبہ سیاست میں پاکستان کی بڑی طلبہ تنظیموں میں سے ایک امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی نمائندگی کرتے ہوئے متحدہ طلبہ محاذ میں طلبہ یونین کی بحالی کے لئے کوشاں تھا- برسوں کی تنظیمی تربیت اور مینجمنٹ تربیت کی وجہ سے کانفرنسز کروانا، پریس کیمپین بنانا اور چلانا سیکھ لیا تھا۔ اسی دوران امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بین الاقوامی کشمیر و فلسطین کانفرنس منعقد کی جس میں پہلی دفعہ کشمیر اور فلسطین سے ہنود اور یہود کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین پاکستان تشریف لائے۔ راقم کے ذمہ جس معزز مہمان کی میزبانی لگی وہ خواجہ شجاع عباس تھے جو مقبوضہ کشمیر میں حزب المومنین کے کمانڈر انچیف تھے اور بارہ مولی کے علاقوں میں سر گرم عمل تھے- دو (2) روزہ کانفرنس کے اختتام کے بعد خواجہ شجاع عباس اور ان کے 2 ساتھیوں نے ہماری درخواست قبول کرتے ہوئے لاہور میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر کے دورہ اور کچھ اہم مقامات میں ملاقاتوں اور پروگراموں میں شرکت کی حامی بھر لی- اس تمام عرصہ کے دوران راقم اور خواجہ شجاع عباس ساتھ ساتھ رہے-

لاہور اور دوسرے کچھ مقامات کے دورہ جات کے بعد خواجہ شجاع عباس اور انجینئر محمود بھائی واپس اپنے کیمپوں کو چلے گئے مگر راقم سمیت کئی دوستوں کا دل بھی اپنے ساتھ لے گئے- بس اس کے یہ ہوا کہ جب بھی حالات اور وسائل نے اجازت دی راقم اور اس کے کئی دو ست خواجہ شجاع عباس سے فیض یاب ہونے پہنچ جاتے- کبھی مظفر آباد اور کبھی سکردو (بلتستان)- یہ سلسلہ راقم کی پاکستان سے روانگی تک جاری رہا- کئی سالوں تک پردیس کی خاک چھاننے کے بعد جب راقم کی واپسی ہوئی تو دوستوں کا تمام سرکل تتر بتر ہو چکا تھا- خواجہ شجاع عباس سے ملاقات ایک حسرت ہی بن کررہ گئی- انجینئر محمود کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں- اتحاد بین المسلمین کے داعیان ان دوستوں کا جگمگاتا یہ جھرمٹ اپنے اپنے غم روزگار اور غم زندگی میں ایسا کہاں کھو گیا کہ اب ان میں سے کسی کے بارے اطلاع ملتی بھی ہے تو اس کے داعی اجل کو لبیک کہنے کی- افففف ۔۔ یہ عملی زندگی کی اتنی تلخ حقیقت ہے جس کا اندازہ تھا بھی تو یوں لگتا ہے کہ نہیں تھا۔

خواجہ شجاع عباس کی موت کی خبر ملی تو دل و دماغ کچھ گھنٹوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہو گیا- یہ یقین ہی نہیں ہوا کہ ایسا ہو چکا ہے۔ موت پر مکمل یقین کے باوجود بھی شجاع عباس کی موت کا یقین نہیں آیا- سچ پوچھیں تو ابھی بھی دل نہیں مانتا کہ شجاع عباس مر چکے ہیں- شاید ان کی میت کا دیدارکرپاتاتو یقین آنا شروع ہوتا کہ ایسا واقعی میں ہو چکا ہے شجاع عباس کی تجہیزو تکفین کی رسومات سے گزرنے سے اس تکلیف دہ حقیقت پہ یقین آنا شروع ہو جاتا ۔مگر شجاع عباس کی میت کو دیکھنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا بھی تو بڑے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا جس کی شدت کو سہنا اتنا بھی آسان نہیں تھا-

صرف ایک دن ہی گزرا ہے اور شجاع عباس کی اس اچانک موت سے پیدا ہونے والی دل کی بے یقینی اب جھنجھلاا ہٹ اور بے بسی میں بدل رہی ہے-دل بچھڑے ہوئے شجاع عباس کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لئے تڑپنے لگاہے حالانکہ دماغ کو پتہ ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اس حالت میں کل اور آج کا سارا دن بے سکون رہا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاءیا اور سکون کی نیند بھی نہیں آ سکی- پریشان کن خوابوں نے کچی پکی نیند میں ڈیرہ ڈالے رکھا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے شجاع عباس ہر جگہ نظر آ رہا ہو خصوصاً امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر مسلم ٹاؤن اور اقبال ٹاؤن آصف بلاک کے راستوں سے گزرتے ہوئے جہاں شجاع عباس کے ساتھ کافی دفعہ آنا جانا رہا تھا- بہت زیادہ غصہ بھی محسوس ہو رہا ہے پنڈی کے ان ڈاکٹروں پر جو شجاع عباس کو بچا کیوں نہیں سکے- اسلام آباد، پنڈی کے دوستوں پر جنھوں نے شجاع عباس کا خیال نہیں کیا اور یہاں تک کہ شجاع عباس پر بھی کہ وہ یوں چھوڑ کر چلا گیا اور ملا بھی نہیں-

خود کو بھی مجر م سمجھ رہا ہوں کہ چاہے کچھ بھی ہوتا، سارے کام کاج ترک کر دیتا اور سب چھوڑ چھاڑ کر شجاع عباس سے پاکستان واپسی پر اس کے جیتے جی سینکڑوں نہیں تو درجنوں ملاقاتیں تو ضرور کر لیتا- سوچ رہا ہوں کہ پاکستان واپس آ کر اگر لاہور کی بجائے اسلام آباد رہائیش رکھ لیتا تو شاید شجاع عباس سے کئی ملاقاتیں رہتیں۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اورجان سے عزیز کئی دوستوں کی موت نے عرصہ تک جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی کیفیت کو طبعیت کا خاصہ بنا دیا ہے- ہر وقت چہکتے رہنے کی بجائے اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو تی جارہی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دیگر دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر راقم کیا عرض کرے کیونکہ جان سے پیارے دوستوں کی پےدرپے اموات کا 7 مارچ 1995ء سے شروع ہونے والا عمل رک ہی نہیں پا رہا- ایک دوست کی موت غم، اداسی کی کیفیت طاری کرتی ہے تو ابھی بمشکل اس سے نکلتے ہیں تو کسی اور کی موت کی اطلاع آجاتی ہے- جیسے موت کا سلسلہ قدرتی ہے تو ویسے ہی دوستوں کی موت پر غم، دکھ اور اداسی بھی تو قدرتی عمل ہے۔

 

شجاع عباس کے انتقال سے پیدا ہونے والے دکھ، اداسی اور غم کی کیفیت کچھ عرصہ تو طاری رہےگی مگر اپنے روزمرہ کے کاموں کی شدید مصروفیات کی وجہ سے نارمل ہو ہی جائیں گے کیونکہ یہی دستور زندگی یے- مگر ان مصروفیات میں جب بھی اکیلے وقت گزارنے کا موقع ملے گا تو شجاع عباس کی یاد اور اس کی باتیں بیت یاد آئیں گی- یہ سچ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے مرحوم دوستوں کی طرح شجاع عباس کی موت کا غم اور دکھ بھی کم ہوتا جا یے گا، اداسی بھی کم ہونے لگے گی, راقم اور شجاع عباس کے دوسرے دوست زندگی کی دوسری چیزوں کے بارے میں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگیں گے لیکن پھر بھی شجاع عباس کے یوں اچانک کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گا-

Advertisements
julia rana solicitors london

تمام قارئین سے درخواست ہے کہ حزب المومنین کے سابق کمانڈر اور اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی مرحوم و مغفور خواجہ شجاع عباس کے بلندی در جات کے لئے فاتحہ خوانی فرما دیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply