مائے نی میں کِنوں آکھاں /عامر عثمان عادل

ایک اور کلی مسل دی گئی
ایک اور غریب زادی امیر زادی کے ظلم کا شکار
پیارے پڑھنے والو !
14 سالہ رضوانہ جس کے ابھی کھیلنے اور پڑھنے کے دن تھے ۔ غربت  کے مارے ماں باپ نے اپنی بیٹی کو ایک سِول جج کے گھر کام کاج کے لئے بھیج دیا
سرگودھا کے رہائشی عاصم حفیظ اسلام آباد میں سول جج کے عہدے پر فائز ہیں۔
رضوانہ گزشتہ چھ ماہ سے ان کے گھر پہ ملازمہ کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔پھر ایک دن وہی روایتی الزام لگا زیور چرانے کا
جج صاحب کی اہلیہ تھی ناں سو گھر پہ عدالت لگا لی
خود مدعی بنی اور منصف بھی
بہیمانہ تشدد کیا ۔ ڈنڈے مار کر سر پھاڑا ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیوں پر ضربیں لگائیں۔
بیگم صاحبہ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو بد نصیب بچی کے ہاتھ اور پاؤں کے ناخن تک نوچے۔جب رضوانہ کی حالت بگڑی تو اسے اسلام آباد سے ساتھ لیا اور والدین کے پاس چھوڑ گئی۔
رضوانہ کی ماں نے جو کچھ بتایا وہ انتہائی دلدوز ہے۔
اس ظالم عورت نے بچی کا علاج بھی نہ کرایا زخموں میں کیڑے پڑے تو اس کو گاڑی میں ڈال کر ہمارے پاس چھوڑ آئی
آسمان گرا نہ زمین پھٹی
اس ڈر  کے مارے کہ یہ بچی اپنے اوپر روا رکھے گئے ظلم کے متعلق زبان نہ کھول دے اسے تیزاب پلا دیا گیا

جج صاحب اور اہلیہ کا موقف
جج صاحب نے بتایا
اس پر کسی نے تشدد نہیں کیا جب ہم نے کہا کہ تمہیں گھر چھوڑنے جا رہے ہیں تو اس نے خود ہی دیوار کے ساتھ سر دے مارا اور زخمی ہو گئی
موصوف کی اہلیہ فرماتی ہیں
اس نے باہر سے مٹی کھا لی تھی جس سے اس کے چہرے پہ نشان پڑ گیا
اسے کہتے ہیں عذر گناہ بد تر از گناہ

کیا جج صاحب کی اپنی کوئی بیٹی ہے؟
اگر ہے تو ہو سکتا ہے اس حرماں نصیب کی ہم عمر ہو، کیا اس ننھی جان پر ستم کے پہاڑ توڑتے ہوئے جج صاحب کی اہلیہ کا دل ذرا بھی نہ پسیجا ؟
اس کی چیخ و پکار فریاد آہ و زاری نے اس شقی القلب عورت پہ کوئی اثر نہ کیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

فرض کریں اگر شبہ تھا کہ اس نے کچھ چرایا ہے تو پولیس کو  رپورٹ کرتے اس کے ماں باپ کو بلوایا ہوتا۔
کیا نابالغ کم عمر بچوں کو یوں گھر پہ رکھ کر ان سے بیگار لینا چائلڈ لیبر کے زمرے میں نہیں آتا ؟
کیا جج صاحب اور ان کی بیگم نے اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی؟
ایک بچی کی جان لینے کی کوشش کیا اقدام قتل کا سیدھا سیدھا کیس نہیں ہے ؟
کیا اس پہ انسانی حقوق کے چیمپئن آواز اٹھائیں گے
یا پھر غریب بچی کے مجبور والدین کو کچھ دے دلا کر چپ کروا دیا جائے گا ؟
کون لڑے گا ان کا مقدمہ؟
گواہ نہ کوئی شہادت
ایک کلی اور مسل دی گئی
ایک اور غریب زادی امیر زادی کے ظلم کا نشانہ بن گئی
کاش آج کوئی اس جج کی بیگم سے کہہ دے
جنیاں تن میرے تے لگیاں
تینوں اک لگے تے توں جانیں

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply