عبدالرزاق کی جگت پر شاہد آفریدی کی تالیاں/محمد وقاص رشید

ایک محاورہ پنجابی کا ہے ایک اردو کا دونوں کو اکٹھا کریں تو وہ بنتا ہے جو عبدالرزاق کے ذہن میں بنا اور منہ سے جھڑا۔ پنجابی محاورے کے مطابق “تھوڑے برتن میں زیادہ شے آ جائے تو باہر گرتی ہے اور اردو محاورے کے مطابق برتن سے باہر وہی کچھ آتا ہے جو اس میں موجود ہو۔

حالیہ ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سابق کرکٹرز کی تو گویا چاندی ہو گئی اور لگے اپنی افلا طونیت جھاڑنے۔ یہاں تلک تو چلو پھر ٹھیک ہے لیکن محض ایک کرکٹ کے کھیل سے وابستہ رہنے والے سابقہ کھلاڑی مخصوص پاکستانی اندازِ فکر اپناتے ہوئے جب میڈیا میں سماجیات ، عمرانیات ، نفسیات ، جیسے علوم کو اول و آخر دینیات میں لپیٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجہ عبدالرزاق  کی گل افشانی اور شاہد آفریدی کی تالیوں کی صورت سامنے آتا ہے۔

کرکٹ کی بہتری سے متعلق سابق کھلاڑیوں کے ساتھ  ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالرزق نے اس وقت پوری دنیا میں اپنے  ذہن کے برتن کے چھوٹا ہونے اور اس میں موجود ذہنیت کے ارزاں ہونے کا ثبوت اس وقت دے دیا جب کہا کہ “موجودہ ٹیم کی نیت میں مسئلہ ہے جب یونس خان کپتان تھا تو میں نے دیکھا کہ اسکی نیت بہت اچھی ہے تو میں نے بھی جان ماری اور اس ورلڈکپ میں پرفارمنس دی لیکن (اب یہاں سے پنجابی اور اردو کے محاوروں کی عملی شکل ظاہر ہونا شروع ہوئی) اگر کوئی ایشوریا رائے جیسی عورت سے شادی کرکے نیک اور پرہیز “بار” بیٹے کی امید لگائے تو ممکن نہیں۔ (یاد رہے کہ “بار” کا لفظ عبدالرزاق کا ہے میرے صرف انورٹڈ کاماز ہیں )۔ اس پر شاہد آفریدی ،عمر گل اور یونس خان نے تالیاں بجائیں۔

اس بیان کے جب ہر طرف سے لتے لئے گئے تو اپنے تئیں “عوام کی خاطر ” کرکٹ کھیلنے والے شاہد  آفریدی نے خود کو اس وقت کرکٹر سے مبصر تک ایک انتہائی اوور ریٹڈ شخصیت ثابت کر دیا جب کہا کہ “مجھے تو بس یہ پتا تھا کہ عبدالرزاق نے مائیک پکڑ کر کوئی جگت کرنی ہے سو میں بغیر بات سمجھے  ہنس پڑا اور تالیاں بجا دیں وہ تومجھے گھر جا کر کسی نے کلپ بھیجا تو مجھے پتا چلا اس نے کہا کیا ہے۔ مخصوص قومی احساسِ کمتری سے جنم لینے والے گلیمر اور اسے کیش کرانے کی بہترین صلاحیت پر بیس سال ایک اوور ریٹڈ کرکٹر رہنے والے صاحب سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

عبدرزاق کے اس بیان کو پاک و ہند میں شدید ناپسندیدگی کی نذر سے دیکھا گیا تو اب اسکے الفاظ میں غیر نیک اور غیر پرہیز “بار” بچے جننے والی ماں “ایشوریا رائے جی ” بن چکی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی عبدالرزاق ہے جو اپنے نیک اور پرہیز بار بچے معروف پاکستانی اداکارہ نرگس کی چھوٹی بہن اداکارہ دیدار سے پیدا کروانا چاہتا تھا۔ (جس پر راقم کو کوئی عبدالرزاق ٹائپ کا اعتراض نہیں)۔ لیکن دراصل قول و فعل کے اس تضاد سے ظاہر ہوتا منافقانہ طرزِ فکرو عمل ہی پاکستانی سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

یہاں تلک تو ہمارے سامنے پنجابی و اردو محاوروں کے مطابق یہ آیا کہ عبدالرزاق ہو یا شاہد آفریدی ، یہ تھوڑے برتن میں زیادہ شے کی مخصوص مثالیں ہیں اب غور فرمائیے گا  کہ ان کے ذہنی برتنوں میں یہ پراگندگی کیوں اور کیسے سمائی ؟

اس بات کے جواب کی تلاش میں آپ میرے مضامین ” پروفیسر شیر علی اور انسانی ارتقاء” اور “اپنے بیٹے کے نام ایک خط” کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ فی الحال آپ اپنے ارگرد ایک نگاہ کیجیے یہاں عورت نام کی ایک مخلوق پائی جاتی ہے جس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ عبدالرزاق سے کمتر ہے جس پر شاہد آفریدی تالیاں بجاتا ہے۔ اسکی عقل بھی آدھی ہے اور یہ کہ وہ مرد کی غیرت کی تسکین کرتی ایک پتلی ہے اور اسلام کے اس ہندوستانی ایڈیشن کی آخری تان اس حیا پر ٹوٹتی ہے جس کی آخری درجے کی تشریح عبدالرزاق نے کی کہ اولاد کے نیک اور پرہیز گار نہ ہونے کی وجہ ماں کا “ایشوریا رائے ” جیسا ہونا ہے۔ باپ بے شک عبدالرزاق جیسا بھی ہو فرق نہیں پڑتا۔

کچھ عرصہ قبل اسی مائنڈ سیٹ کے ایک سرخیل بلال قطب صاحب نے ٹی وی پر بیٹھ کر جاوید میانداد صاحب کی خوش آمد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے جاوید میانداد جیسے کرکٹر اس لیے پیدا ہوتے تھے کہ ماں باپ کے بیڈز کے درمیان فاصلہ ہوتا تھا ایک حیا ہوتی تھی۔ اب بلال قطب کے  نزدیک جاوید میانداد کے بعد کے کھلاڑی بے حیائی کی پیداوار ہیں جن میں عبدالرزاق شامل ہے اور عبدالرزاق کے مطابق یونس خان کے بعد کے کرکٹرز کی نیت اس لیے خراب ہے کہ انکی والدہ ایشوریا رائے جیسی ہے۔

بھیا کیا منافق معاشرہ ہے کہ اس میں ماں کی گالی اور مقولہ کہ  “ماواں سانجھیاں ہندیاں نیں ” ایک ہی وقت میں معروف ہے۔

میری طالبعلمانہ نگاہ میں  ملائیت کی پوری مذہبی تفہیم اس لیے عورت کے گرد گھومتی ہے کہ عورت کی کوکھ سے انسان جنم لیتا ہے اور گود سے معاشرہ۔ جب ایک احساسِ کمتری مقدس بنا کر حیا اور غیرت میں ملفوف کر کے عورت کی بنیاد میں سمو دیا جائے تو گھر اسی ذہنیت کی پہلی آماجگاہ بن جاتا ہے جہاں بیٹیوں کی تربیت کے نام پر اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ ہم بیٹوں کی تربیت سے قاصر ہیں۔ سو صنفی عدم توازن کا نسل در نسل کا سلسلہ رکتا نہیں۔

بنوں کے پروفیسر شیر علی صاحب کو ملائیت کی طرف پڑھائے گئے جبری بیان میں یہ چیز شامل تھی کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مرد عورت سے برتر ہے اور سلسلے میں دی گئی سائنسی ، علمی اور آئینی توجیہات سے برات کا اعلان کرتا ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سماج اس جبر کے خلاف بھی ایسے ہی ردعمل کا اظہار کرتا جو عبدالرزاق کے معاملے میں کیا اور پروفیسر صاحب کے ساتھ جبر کرنے والے اسی طرح معافی مانگتے لیکن۔۔۔۔

اصل مسئلہ ہے کیا ؟ میری نگاہ میں پاکستانی قوم کے لیے اپنے دیس کو ایک منظم ، معتدل ، ترقی پسند اور متوازن انسانی سماج بنانا ترجیحات میں شامل نہیں جو کہ ایک پیہم فکری عمل ہے۔ اس بحران کو جہاں مذہبی شدت پسندی نے پیدا کیا وہاں اسکی سب سے بڑی افادہ کار بھی وہی ہے۔ مذہب کو ظاہر پرستی کی چیز بنا کر مذہب کے اصل ہدف باطنی تطہیر کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی سائینسدان جو فکری معمار ہوتے ہیں انکی عدم موجودگی یا غیر مقبولیت میں کھلاڑی ، اداکار اور سیاستدان ہر جگہ اسلامی ٹچ دے کر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں۔

اس معاملے میں فکر کے دو پہلو ہیں ایک منفی ایک مثبت۔ منفی یہ کہ سوچنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ قوم کی نمائندگی کرنے والے افراد کی فکری صلاحیت کا یہ عالم  ہے کہ ایک ، ایک خاتون جو کسی کی بیوی ہے ایک بیٹی کی ماں ہے اسکے متعلق اتنی جاہلانہ گفتگو کرتا ہے اور دوسرا سپر ڈپر سٹار کہتا ہے میں تو بس یہ سوچ کر تالیاں بجا رہا تھا کہ اس نے جگت کرنی ہے۔ اور مثبت یہ کہ عبدالرزاق کی بات پر شاہد آفریدی کی طرح تالیاں نہ بجا کر اس دفعہ مجموعی عقلیت Collective Wisdom نے اندھیرے کے اس پار ایک امید کی کرن روشن کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سابق کرکٹرز سے گزارش ہے کہ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ نے موجودہ ٹیم سے بہتر کرکٹ کھیلی ہے تو بھیا کرکٹ تک محدود رہیے، اب اگر آپ اس سطحی سی ذہنیت اور علمیت کے ساتھ دیگر سنجیدہ موضوعات پر طبع آزمائی کریں گے تو حال عبدالرزاق جیسا ہی ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply