• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زخموں کے کیڑے ، کیڑوں کے زخم ( سیشن جج اور زخمی بچی کے باپ کے درمیان متوقع صلح نامہ)-محمد وقاص رشید

زخموں کے کیڑے ، کیڑوں کے زخم ( سیشن جج اور زخمی بچی کے باپ کے درمیان متوقع صلح نامہ)-محمد وقاص رشید

(سیشن جج عاصم حفیظ اورباسکی بیوی صومیہ (جلاد بی بی) اور رضوانہ (مضروب بچی) کے باپ منگا خان کے درمیان متوقع صلح نامے کی تخیلاتی تحریر )

 

 

 

 

 

اسلام کے قلعے کے دارلخلافہ اسلام آباد کے ایک سیشن جج عاصم حفیظ کو گھر میں کام کاج کے لیے ایک بچی کی ضرورت تھی۔ سرگودہا کے رہائشی منگا خان نے کسی منتظم کے ذریعے اپنی 13 سالہ بیٹی رضوانہ کو انکے گھر زریام ہاؤسنگ کالونی بالمقابل گیگا مال میں چھوڑ دیا۔ بچی کو پیدا کرتے وقت منگا خان کو ملاں صاحب نے یقین دلایا ہوا تھا کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہےسو منگا خان نے اسے اپنا اور اسکا دونوں کا رزق ساتھ لانے کے لیے جج عاصم حفیظ کے گھر پر چھوڑ دیا۔ اس بچی کا جرم غربت ہے جس سے بڑا ناکردہ جرم انسانیت کی تاریخ میں کوئی نہیں نہ ہی اس سے بڑی کوئی پاداش۔
اسکے ماں باپ کے بیان کے مطابق جب وہ اپنی بچی سے ملنے اسلام آباد گئے تو انہیں انکی بچی شدید زخمی بلکہ ادھ موئی حالت میں ملی۔ اسکے ننھے بدن کا کوئی ایسا حصہ نہ تھا جس پر زخم نہ ہو۔ سر کٹا پھٹا ، آنکھیں سوجی ہوئیں نیل زدہ ، ایک ٹانگ ، ایک بازو اور ایک پسلی ٹوٹی ہوئی اور۔۔۔۔۔۔اور (ہاتھ کانپتے ہیں لکھتے ہوئے ، زخموں میں کیڑے پڑے ہوئے تھے )
سیشن جج کے بیان کے مطابق جب اس نے اور اسکی بیوی نے بچی رضوانہ کو کہا کہ اسے اسکے گھر چھوڑ آتے ہیں تو اس نے دیواروں میں ٹکریں مار نی شروع کر دیں اور زخمی ہو گئی۔ اور لان میں رکھے گملے سے مٹی کھانے لگی جسکی وجہ سے اسکے چہرے پر نشانات پڑ گئے۔
بچی کو ماں باپ سرگودہا واپس لے کر آئے جہاں سے انتہائی تشویشناک حالت میں اسے لاہور سروسز ہسپتال بھیج دیا گیا ہے۔
جس ریاست میں چائلڈ لیبر ہے ہی جرم اس نے ان زخموں ، چوٹوں ، اذیتوں ، ذلتوں اور انسانیت سوز سلوک کے عوض آدھی تنخواہ پر کام کرتی رضوانہ کے لیے اپنے آئینی محافظ و منصف کے خلاف کمزور سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ یہ دفعات اس صلح کی راہ ہموار کرتی ہیں جسکی متوقع تحریر یہ ہونی چاہیے۔
1-اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیشن جج اور بچی رضوانہ کے باپ میں بقائمی ہوش و حواس صلح ہو گئی ہے۔ دونوں نے باقی گواہان کے ساتھ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا بچی کے صرحانے بیٹھ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور مٹھائی کھائی اور تقسیم کی۔
2-کیونکہ منگا خان اور اسکی بیوی کا رضوانہ کو پیداکرتے ہوئے ایمان تھا کہ رازق و رزاق خدا ہے اور ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے تو سیشن جج عاصم حفیظ کی طرف سے مقرر کردہ تنخواہ مبلغ دس ہزار روپے ماہانہ، بے شک آئینِ پاکستان کی کم ازکم اجرت سے آدھی ہے لیکن یہ انکے ایمان کے مطابق خدا کی دین ہے اور یہی تو وہ رزق ہے جو ہر بچہ اپنے ساتھ لاتا ہے اب اگر خدا نے ہی رضوانہ کے مقدر میں اتنا رزق لکھا تو جج صاحب کا اس میں کوئی قصود نہیں۔ یہ اسی رازق خدا کا فیصلہ ہے جس نے سیشن جج کی تنخواہ سے کہیں زیادہ اوپر کا معیارِ زندگی انہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یقیناً انکے محل کے اوپر “واللہ خیرالرازقین ” لکھا ہو گا۔
3۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بچی وہاں اکیلی تھی خوفزدہ تھی ۔ بچی سرگودہا سے اسلام آباد آتے ہوئے اپنی گڑیا کو بھی ساتھ لے آئی تھی۔ بچی اس گڑیا کو کبھی اپنی بیٹی کہتی کبھی سہیلی، کبھی خود کو لگائے گئے زخموں پر شدید درد کی صورت میں پھاہے کے طور پر رکھ لیتی تو بھیگی پلکوں سے نیند پھسل کر گھائل آنکھوں میں پہنچ جاتی سو جج صاحب اور انکی اہلیہ کی نیک نیتی دیکھیے کہ دونوں کو اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔
4۔ بچوں کی تربیت کے لیے خود ماں باپ بھی کبھی کبھار بچوں کو مار پیٹ کر دیتے ہیں سو رضوانہ کی اچھی تربیت کے لیے اگر عصمہ بی بی نے اسکی “تھوڑی بہت ” سرزنش کر دی تو کوئی قیامت تو نہیں آ گئی ۔ پچھلے والے کیس کی طرح کوئی استریاں تو نہیں لگائیں۔
5۔ رضوانہ کو اپنی گڈی گڈے کی شادی کرتے گوٹے کناری کے دوپٹے سر پہ لینے کا بہت شوق تھا سو کیوں نہ سر پر پڑے نشانوں کو دوپٹے کی گوٹہ کناری سمجھا جائے۔ وہ آنکھوں میں کاجل لگانے کی شوقین تھی تو لینیے سیشن جج کی بیوی نے دونوں آنکھوں میں مستقل کاجل ڈال دیا۔ پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے تو کیا ہوا اس نے کون سا سکول جانا ہے ایک گھر میں کام ہی کرنا ہے اور وہ لنگڑا کر بھی ہو سکتا ہے۔ عورت کیونکہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس لیے سیشن جج کی بیوی دراصل اس “چورنی” کی پسلیاں سیدھی کرنے کی کوشش کیں ایسے میں انکا ٹوٹ جانا محض اتفاق ہے۔ لیکن یہ اسکی تربیت کے لیے ضروری تھا اگر اس نے زیور نہیں بھی چرایا تو اسے زندگی بھر چوری سے نفرت محسوس ہو گی۔
6۔ جتنے پیسوں پر رضوانہ کے ماں باپ اس عظیم صلح پر راضی ہوئے وہ دیکھ لیجیے رضوانہ کی ماہانہ تنخواہ سے کتنی ضربیں دے کر بنتی ہے۔ رضوانہ کو لگنے والی ضربیں بحرحال ان سے زیادہ نہیں ، دیکھیے جج صاحب اور انکی بیوی کی دریا دلی۔ یہ بچی تو خوش قسمت ہوئی نہ کہ اپنے ساتھ لانے والا رزق ایک ہی دفعہ میں اتنا لے آئی۔
7۔ جانے کیوں بیٹوں کی دعائیں کرتے تھکتے نہیں لوگ دیکھو بیٹی کیا ہوتی ہے۔ ماں باپ کو مہینے کے دس ہزار دیتی تھی تو وہ زخم نہیں نوٹ گنتے تھے کم ہوتے تھے زخموں سے۔ اس نے اتنے زخم لیے کہ قائداعظم کی تصویر والے نوٹ بڑھ گئے۔ مان گئے اس قائداعظم کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو۔
“آخری نکتہ “۔۔۔ غلطی نہ سیشن جج کی ہے نہ انکی بیوی کی نہ منگا خان اور اسکی بیوی کی غلطی ان کیڑوں کی ہے جو رضوانہ کے زخموں میں پڑ گئے اور بات اتنی بڑھ گئی۔ رضوانہ کو جو خوراک ملتی تھی وہ اسکے زخموں کے کیڑے کھاتے تھے۔ رضوانہ نے زیور بھلے نہ چوری کیا ہو لیکن اپنے زخموں کے پالتو کیڑوں کے لیے خوراک تو چوری کی نہ۔۔۔۔اور عاصم حفیظ صاحب اور انکی اہلیہ محترمہ عاصمہ کی عظمت دیکھیے کہ بچی کے ساتھ اسکے Pets کو بھی پالتے رہے۔ اب بچی کے والدین اور سیشن جج اور اسکی بیوی میں صلح نامے کا یہ معاہدہ طے پاتا ہے کہ اگر بچی بچ گئی تو اس احسان کے بدلے دوبارہ انہی کے گھر کام کرے گی لیکن یاد رہے کہ زخمی ہونے کی صورت میں کیڑوں کی ذمہ داری ماں باپ کی ہو گی ، (اگر زندہ رہی تو ، نہ رہی تو اسکا مطلب زندگی تھی ہی اتنی کیونکہ رزق کی طرح وہ بھی خدا کے سپرد ہے۔ یہ خدا کا ملک ہے اسے خدا ہی چلا رہا ہے )

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر ! بچی موت و حیات کی کشمکش میں ہے۔ پچھلے چھے ماہ کی جاں کنی اور بے انتہا اذیت سہتے سہتے وہ اندر سے تو ویسے بھی مر چکی۔ مگر یہ “صلح نامہ ” اسکے بدن کے تابوت میں ذلت و اذیت کا آخری کیل ثابت ہو۔ شاید اسکے زخمی ہونٹ محوِ جنبش ہوں۔ شدید درد ، لا متناہی تکلیف اور اذیت سہتے سہتے ہر چوٹ کے ساتھ منہنی سا معصوم جسم درد سے لرزرتے ہوئے ماں کو پکارتا تھا تو وہ نہ آئی ، باپ کو پکارا تو ہزار ہزار کے دس نوٹ گننے میں مصروف تھا ، خدا کو آواز دی تو اپنی دنیا زمین کے خداؤں کو سونپ کر آسمانوں میں کہیں محو تھا۔ ڈاکٹروں سے کہنا چاہتی ہے کہ مجھے مت بچاؤ مگر وہ بھی نہیں سن رہے۔۔۔۔۔اب شاید اس صلح نامے کے آخری نکتے کے بعد اپنے جسم کے کیڑوں کی زندگی کی دعا مانگتی ہو گی۔۔۔۔
(آخر میں مگر راقم کی ایک دعا ضرور ہے اے خدا زمین پہ یہ قیامتیں ڈھانے والوں کے لیے قیامت کا انتظار اب نہیں ہوتا۔ اب آنکھیں ان بچیوں کے زخموں میں کیڑے ڈالنے والوں کے پور پور میں کیڑے جیتے جی دیکھنا چاہتی ہیں مالک)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply