• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • حضرت جون ایلیا کے سوالات اور ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کا کالم…..امیر حسین جعفری

حضرت جون ایلیا کے سوالات اور ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کا کالم…..امیر حسین جعفری

معروف انسان اور انسانیت دوست ڈاکٹر خالد سہیل نے  اپنے تازہ کالم ” کیا آپ دعاؤں پر انحصار کرتے  ہیں یا دواؤں پر ؟”  میں معروف شاعر اور دانشور جناب جون ایلیا کے اٹھائے گئے سوالات کہ
کیا خدا موجود ہے؟
اگر خدا موجود ہے تو کیا اس کا کوئی وجود بھی ہے؟
اگر اس کا وجود ہے تو کیا وہ کوئی چیز ہے کوئی شے ہے؟
اگر خدا کوئی شے یا کوئی چیز نہیں ہے تو کیا وہ موجود نہیں ہے؟
یا خدا کوئی چیز کوئی شے نہ ہوتے ہوئے بھی موجود ہے؟
کیا خدا کا ایسا وجود ہے جو شے نہیں ہے؟
کو اپنے کالم کا حصہ بنایا ہے ۔
ان تمام سوالات کے جوابات روز ازل سے انسانی فکر اور دلچسپی کا موضوع ہیں ان کی اس تحریر نے مجھے ان سوالات کے جوابات لکھنے کی تحریک دی ہے۔ ان سوالات کے جوابات جو مجھے تیس برس کی فکری اور تحقیقی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئے وہ ترتیب وار یوں ہیں ۔
جون ایلیا کا پہلا سوال کہ کیا خدا موجود ہے ؟
اس سوال کا تعلق تشکیک سے ہے اور اس کا سبب انسانی سرشت میں موجود عقل پرستی کی بنیاد پہ استوار وہ سوال ہے جو اسے اس کی فکری عادت اور اس کے حواس و ادراک نے عطا کیا ہے۔ انسان کیونکہ کسی شے کو دیکھ کر اس کے ہونے یا ہونے کا تصور قائم کرتا ہے لہذا کسی شے کا نظر نہ آنا کسی بھی متجسس روح کو اس نوع کا سوال قائم کرنے میں حق بجانب قرار دیتا ہے۔
جون ایلیا صاحب کا دوسرا سوال کہ اگر خدا موجود ہے تو کیا وہ وجود بھی رکھتا ہے؟۔
اس سوال کا جواب عرض کرنے سے قبل ایک نقطے کی نشاندہی ناگزیر ہے کہ کوئی بھی سائل جب خدا کے ہونے اور اس کے وجود کے حوالے سے سوچتا ہے تو کیا یہ سوال وہ بطور مذہبی انسان سوچ رہا ہے یا خدا تک رسائی اس کے تجسس کا موضوع ہے یا خدا کے استرداد کے لئے اس نے یہ سوال قائم کیا ہے؟۔ اگر تو سوال اس نے خدا کے ہونے کے تصور کو مسترد کرنے کے لئے کیا ہے تو اس استرداد کے لئے نوع انسانی کو کسی جدوجہد کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اور وہ اس لئے کہ اگر وہ خدا کے نہ ہونے کے نظریے کا قائل ہے تو اس کی اس فکری مشقت کا دائرہ کار محض شبہات کو پیدا کرنے اور پہلے سے موجود شبہات کو تقویت دینے اور ان کی تائید و توثیق تک محدود ہے۔ اس عمل کو جدلیات تو قرار دیا جاسکتا ہے فکری نہیں۔ہم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دہریت کا تمام استدلال، دلائل و براہین خدا کے وجود کے نہ ہونے کی روداد تو کہتے ہیں مگر خدا کے ہونے کے باب میں دہریت اس موضوع سے سائنسی عقل پرستی یا منطقی منہاج اختیار کرتے ہوئے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ یہاں اس امر کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیونکہ خدا کے وجود کا تصور مذہب نے قائم کیا ہے لہذا خدا کے ہونے کے سوال کے جواب کے لئے سائل کو الٰہیات یعنی مذہب سے ہی رجوع کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اس حوالے سے مذہب ذہن انسانی کے تجسس کی تشفی کے لئے کیا جواب فراہم کرتا ہے ۔
جون ایلیا کا سوال کہ اگر خدا موجود ہے تو کیا وہ وجود بھی رکھتا ہے ؟
جون صاحب کایہ سوال الٰہیات کے قائم کردہ تصور خدا سے عدم آگاہی کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے۔ خدا کے وجود کے حوالے سے جون صاحب کا یہ سوال اس امر کو نمایاں کرتا ہے کہ موجودگی کے لئے وجود کاہونا لازم ہے۔ جون صاحب کا یہ سوال ان کے فکری تناقض کی نشاندہی کرتا ہے۔وجود کی موجودگی خدا کی مخلوق سے مخصوص ہے۔ خدا کیونکہ خالق ہے لہذا خدا کے لئے وجود کا تصور قائم کرنا الٰہیات کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے۔اگر خدا کے لیے وجود کا تصور قائم کیا جائے تو یہ گویا خدا کو محدود کرنا ہے ۔ خدا اگر وجود رکھتا ہو تو وہ نہ صرف محدود ہوجائے گا بلکہ وہ شخصی تصور کے قریب چلا جائے گا اور یہ تصور نہ صرف نظیر قائم کر دے گا بلکہ اس کی یکتائی پر سوال بھی قائم کر دے گا۔ یہی سبب ہے کہ الٰہیات بالعموم اور اسلامیات خدا کو واحد نہیں بلکہ احد قرار دیتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے بیان میں اس امر پہ اصرار کرتی ہے کہ خدا ایسا ایک ہے جسکا دوسرا نہیں ہے یعنی خدا عددی ایک نہیں ہے خدا اگر عددی ایک ہو تو دوسرے کا امکان قائم ہوتا ہے اور جہاں امکان پیدا ہوجائے وہاں خدا حادث یعنی ممکن قرار پاتا ہے اور خدا اگر حادث یا ممکن ہوجائے تو وہ واجب نہیں رہتا۔ جون صاحب سمیت بہت سے متشکک اسی عدم آگاہی کی بنیاد پر فکری مغالطے کا شکار ہوتے ہیں۔
جون صاحب کے یہ سوال کہ
اگر اس کا وجود ہے تو کیا وہ کوئی چیز ہے کوئی شے ہے؟
اگر خدا کوئی شے یا کوئی چیز نہیں ہے تو کیا وہ موجود نہیں ہے؟
یا خدا کوئی چیز کوئی شے نہ ہوتے ہوئے بھی موجود ہے؟
یہ تمام سوالات اصل میں ایک ہی سوال کی مختلف شکلیں ہیں
ان کے تربیت وار جوابات اس طرح ہیں کہ الٰہیات اور خود خدا اپنے لئے شے کا لفظ استعمال کرتا ہے مگر جون صاحب کے تصور کے برعکس وہ شے ہونے کے باوجود موجود ہے ۔جون صاحب کا آخری سوال کہ اگر وہ شے نہیں ہے تو کیا وہ موجود نہیں ہے ؟کا جواب اس طرح ہے کہ، خدا بغیر وجود کے موجود ہے ۔ خدا صفات اور ذات کا مجموعہ ہے اس کی صفات اس کی ذات ہے اور اس کی ذات عین صفات ہے اس کی صفات اور ذات کو جدا کرنا دوئی ہے اور اسی دوئی کا اظہار جون صاحب نے اپنے سوالات میں کیا ہے۔ یہ تو خیر بہت دقیق علمی مباحث ہیں میری رائے میں تو نوع انسانی خدا کو مخاطب کرنے کے صیغے پر بھی متفق نہیں ہو پائی اور ابھی تک اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں بھی ناکامی کا شکار ہے کہ خدا مذکر ہے کہ مونث، خدا کی صنفی شناخت کے حوالے سے نوع انسانی کے تذبذب کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عربی زبان میں خدا بائی ڈیفالٹ مذکر ہے۔ مسلمانوں یا عیسائیوں کا یہ فکری مغالطہ اس لئے ہے کہ جون صاحب کی طرح ان کا تصور خدا بھی شخصی ہے۔ مذکر اور مونث کی قید ،مخلوق کے لئے ہے۔الٰہیات کے مطابق خدا خالق ہے اور اس نوع کے تصورات سے بلند ہے۔ توحید کے باب کی بہتر تفہیم کے لئے اس امر کی نشاندہی ناگزیر ہے کہ خدا کے حوالے سے انسان کا قائم کردہ ہر تصور، خدا کو خالق کے درجے سے ساکت کر کے مخلوق کے درجے پر فائز کر دیتا ہے۔ کیونکہ انسان کے تصور خدا کا خالق ، ذہن انسان ہے اور خیال انسان کی ذہنی مخلوق ہے۔
بات کافی طوالت اختیار کر گئی، بات سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی تحریر کے آخری حصے کو بھی زہر بحث لانے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ خدا  نےدوا اور دعا دونوں کا حکم دیا ہے ۔یقیناََ خدا کہتا ہے کہ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو میں اسے شفا دیتا ہوں۔ خدا کے اس قول کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ شفا کے لئے دوا کی تدبیر نہ کی جائے یہ دنیا عالم اسباب ہے اگر انسان تدبیر سے کنارہ کش ہو جائے تو نہ صرف الٰہیات بلکہ اس دنیا کی معنویت بھی لا یعنی ہو کر رہ جائے۔ ایک واقعہ درج کرنے کی اجازت چاہتا ہوں یہ واقعہ الٰہیات کی کتب میں درج ہے اور اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام بیمار ہوئے تو انہوں نے خدا سے شفا کے لئے دعا کی۔ اللہ نے کہا کہ موسٰی فلاں مقام پر ایک جڑی یا بوٹی ہے اسے کھالیں۔موسٰی علیہ السلام نے وہ بوٹی کھا لی اور وہ شفا یاب ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد موسٰی علیہ السلام دوبارہ بیمار ہوئے تو انہوں نے دوبارہ وہ بوٹی کھائی مگر انہیں شفا نہ ہوئی ، شفایابی نہ ہونے پر انہوں نے اللہ سے کہا کہ دوبارہ بیمار ہونے پر میں نے وہی جڑی بوٹی اس امید کے ساتھ کھائی کہ مجھے پہلے کی طرح بیماری سے نجات مل جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ خدا نے کہا کہ موسٰی آپ کو بیماری سے شفا اس جڑی بوٹی کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ میں نے آپ کو شفا عطا کی تھی، ہاں وہ دوا جو جو جڑی بوٹی کی صورت میں کھائی وہ ہی شفا حاصل کرنے کا طریقہ ہے ۔ یقینا شفا کے لیے دوا کا وسیلہ اختیار کرنا بحکم خدا لازم ہے اور شفا کے لئے خدا کے حضور دعا بھی کرنا وہ طریقہ کار ہے جو نوع انسانی کو الٰہیات تجویز کرتی ہے۔ سادہ لوح ،کم علم یا لاعلم افراد پریشانی کے عالم میں جو روش اختیار کرتے ہیں اس فکری روش کو اصول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسے انفرادی عمل یا انفرادی فکری روش تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر بطور اصول اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی الٰہیات اس کی تائید و توثیق کرتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply