کیا پاکستان ٹوٹ جائے گا؟-تصور حسین شہزاد

پاکستان کے ممتاز تجریہ کار، اینکر پرسن اور صحافی حامد میر نے ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ دنیا پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بہت گہرائی سے جائزہ لے رہی ہے اور پاکستان کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ حامد میر نے تین بھارتی اور ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا تھنک ٹینکس یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک ٹوٹ جائے گا، جبکہ امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ ہے کہ نہیں، 2030ء میں نہیں بلکہ 2033ء میں ٹکڑے ٹکرے ہو جائے گا۔ بطور پاکستانی، ہم اس نظریئے، تجزیئے اور رپورٹس کو حب الوطنی میں تسلیم نہیں کرتے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں، ہم ایسی کسی بھی رپورٹ پر کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ (میں بھی ایسا ہی کہتا ہوں)، لیکن حقائق ایسے خوفناک ہیں کہ چشم بینا رکھنے والے پریشان ہیں۔

پاکستان اگر قیامت تک قائم رہنے کیلئے بنا ہے، تو پھر مشرقی پاکستان جدا کیسے ہوگیا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، اگر کوئی جواب دینے کی جرات بھی کر لے تو کہتا ہے، ’’اپنوں کی غلطیوں سے۔‘‘ قومیں غلطیاں دوہرایا نہیں کرتیں، مگر بدقسمتی سے ہم نہ تو تاریخ سے کوئی سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطیوں سے کوئی اثر لیتے ہیں۔ ایک غلطی ہو جائے تو دنیا اسے دوبارہ نہیں دوہراتی، بلکہ اسے درست کرکے آگے بڑھتی ہے، ہم ہر بار غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں، پھر اسے دوہراتے بھی ہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، لیکن ایک عام سی مثال، آپ الیکشن دیکھ لیں، ہم نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے، انہوں نے اقتدار میں آکر عوام کی چیخیں نکلوا دیں، ہم نے تہیہ کر لیا، آئندہ انتخابات میں پی پی پی کو ووٹ نہیں دیں گے، ہمیں الیکشن کا موقع میسر ہوا، ہم نے پیپلز پارٹی کو عبرتناک شکست سے دوچار کرکے مسلم لیگ نون کو بھاری مینڈیٹ سونپ دیا۔ نواز شریف اسی بھاری مینڈیٹ کے ’’بھار‘‘ میں ہی دب گئے۔

پھر نون لیگ نے عوام پر وہ ستم ڈھائے کہ ہر پاکستانی بلبلا اُٹھا۔ ہم پیپلز پارٹی کے مظالم بھول گئے اور وہ ایک بار پھر ہمیں نجات دہندہ دکھائی دینے لگی۔ ہم نے پھر پیپلز پارٹی کو منتخب کرلیا۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روش اپنا لی۔ ہم پھر گالیاں دینے اور الیکشن کا انتظار کرنے لگے۔ یہ تاریخ بار بار ہم نے دوہرائی، کیوں؟؟ سسٹم کی خرابی کے باعث ہمارے پاس کوئی تیسرا آپشن تھا ہی نہیں۔ ایک بار یہ بحث شروع ہوئی کہ بیلٹ پیپر پر دو امیدواروں کے انتخابی نشان کیساتھ ایک تیسرا خانہ بھی بنایا جائے، جس میں ووٹر یہ رائے دے سکے کہ یہ دونوں امیدوار ’’چور‘‘ ہیں، میں دونوں کو مسترد کرتا ہوں۔ مگر دونوں جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اس رائے کو اُٹھا کر سمندر برد کر دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے سب سے زیادہ اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ پاکستانی قوم کی سادگی کہ یہ ہر بار الیکشن میں بُرے چور اور اچھے چور کا انتخاب کرتی ہے۔

عمران خان اور تحریک انصاف کی شکل میں ایک تیسرا آپشن ملا تو سہی، مگر پاکستانی نظام کی خرابی کی بدولت وہ تیسرا آپشن بھی ایسے ہی ’’باہمی اتحاد‘‘ سے ختم کر دیا گیا، جیسے خالی خانے کا آپشن سمندر برد کیا گیا تھا۔ پاکستان کا نظام ایسا ہے کہ اس میں تمام مافیاز مضبوط ہیں۔ سیاستدان مافیا، مُلاں مافیا، بیوروکریٹس مافیا، اسٹیبلشمنٹ مافیا، عدلیہ مافیا، تاجر مافیا، ذخیرہ اندوز مافیا، ڈاکٹر مافیا، سکولز مافیا، میڈیا مافیا، گویا ہر شعبہ ہائے زندگی یا ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز میں مافیاز کا قبضہ ہے اور اس قبضے میں یہ سارے مافیاز ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ ایسی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ عوام انہیں اپنا خیر خواہ مان کر نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ اپنی محفلوں میں عوام کو گالیاں دے کر کہتے ہیں، کسے اُلو بنایا۔

اب بھی جب تحریک انصاف ایک حقیقی نجات دہندہ کے روپ میں سامنے آئی، تو اس کیخلاف تمام مافیاز ایک پیج پر آگئے۔ کل تک ایک دوسرے کو گندی گالیاں دینے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے، وہ متحد و یکجان ہوگئے اور پی ٹی آئی کا ایسا صفایا کیا کہ عمران خان سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ ان کیساتھ یہ ہو کیا گیا ہے۔ یہ مافیاز بیرونی قوتوں کے آلہ کار بھی ہیں اور نمک خوار بھی، ان مافیاز کو پاکستان کا خیال ہے، نہ عوام کا کوئی دکھ۔ انہیں صرف فکر ہے تو اپنے اور اپنے آقاوں کے مفاد کی۔ پاکستان کیخلاف سازشیں نئی نہیں، یہ پہلے دن سے ہی ہو رہی ہیں۔ کبھی فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے، کبھی لسانی بنیادوں پر لڑایا جاتا ہے، کبھی صوبائیت کا آلاو روش کر دیا جاتا ہے، تو کبھی سیاسی بنیادوں پر دست و گریباں کر دیا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام، ہر بار ان کی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں، پختون علاقوں کا معاملہ، پنجاب کو توڑنے کی سازشیں، گلگت بلتستان میں شورشیں، سندھو دیش کے نعرے، یہ سب وہ منصوبے ہیں، جن کیلئے آلہ کار ہمارے اپنے ہیں۔ یہ مافیاز تو آج نہیں برسوں سے پاکستان کے ٹکڑے کرکے اپنے اپنے حصے پر حکمرانی کی خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس میں اللہ کا کرم شامل حال نہ ہوتا یہ مافیاز کب کے کامیاب ہوچکے ہوتے، مگر یاد رکھیں کہ اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، اگر ضعیفی جرم بن جائے تو اس کی سزا مرگ مفاجات ہوا کرتی ہے۔ قوم آج بھی سوئی رہی اور ان مافیاز کی شناخت نہ کی تو پھر لمحوں کی خطا، صدیوں کی سزا بن جایا کرتی ہے۔ ہماری بربادیوں کے قصے چل رہے ہیں اور ہم غافل پڑے ہیں، پاکستان کو ٹکڑے کرنے کا خواب انڈیا، اسرائیل اور امریکہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ثلاثہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا، امریکہ کی واضح دشمنی کے باوجود ہمارے حکمران کیوں بار بار امریکہ کی گود میں جاتے ہیں۔؟ سادہ سا جواب ہے کہ ان کے مفادات امریکہ سے ہی پورے ہوتے ہیں، انہیں اپنے آقا کی خوشنودی عزیز ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستانی دفتر خارجہ نے پریس بریفنگ میں اعلان کر دیا کہ پاکستان کسی روسی بلاک میں نہیں جا رہا، ہمارے امریکہ کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم بلاکس کی سیاست نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ اپنی نوکری بچانے کی فکر ہے شائد۔ اس لئے پاکستان کو توڑنے کے منصوبے بہرحال ہیں، لیکن پاکستان کے عوام ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ یہ 70 کی دہائی نہیں، بلکہ 2023ء چل رہا ہے، نوجوان باشعور ہیں، اچھے بُرے کی تمیز بھی جانتے ہیں۔ یہ وطن ہماری دھرتی ماں ہے اور ماں کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے، ہم باہمی اتحاد سے دھرتی ماں کو مزید ٹکڑے ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply