عزمِ مصمم۔۔رابعہ علی

” ابو ثریا “فلسطینی مجاہد تھا۔ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور تھا۔ خالی ہاتھ تھا لیکن اپنے دشمن کی طرح بزدل نہ تھا۔
غاصب اسرائیلی فوج نے اس کے سر کا نشانہ لیا اور یوں اپنے طور پر اس کا خاتمہ کر دیا۔ مگر ایسے لوگ مرتے نہیں، بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی بیداری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی وہ بھی جاتے جاتے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے ہمت و حوصلے کی مثال قائم کر گیا۔
وہ جو ایک روشن صبح کی تلاش میں نکلا تھا۔ آخر دم تک اپنے ارادے پر قائم رہا۔ بہت پہلے وہ ایک فضائی حملے میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھا تھا۔ بظاہر ایک معذور انسان کہلانے لگا۔ لیکن اس نے اپنی معذوری راہ کی    رکاوٹ نہ بننے دیا۔ اپنے حوصلے اور ہمت سے معذور ی کو شکست دی۔
یہ ارادے کی پختگی ہی تھی۔ بلند ہمتی تھی۔ منزل کا شوق تھا۔ کامیابی کا یقین تھا، جو دونوں ٹانگوں سے معذور نہتے انسان کو مسلح دشمن سے لڑا گیا۔
ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو .
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے.
کسی بھی کام کو شروع کرنے میں ہمت اور ارادے کی مضبوطی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بلند ہمتی اور مضبوط ارادہ ہی کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔۔تاریخ میں ایسے بہت سے کردار ملتے ہیں، جنھوں نے نامساعد حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنی مضبوط قوت ارادی سے شکست دی۔اسلام کی ابتدا دیکھیں تو ایسے بے شمار کردار نظر آتے ہیں، جنھوں نے ناصرف مشکلات و مصائب کا سامنا کیا، تکالیف برداشت کیں، منزل پر پہنچے، کامیابی حاصل کی، بلکہ آنے والے دور کے انسانوں کے لیے عزم و ہمت کی داستانیں چھوڑ گئے۔ایک لیڈر کے لیے عالی ہمت ہونا بہت ضروری ہے۔ لیڈر کے فیصلے کا پوری قوم پر اثر پڑتا ہے۔ کہیں ایک جملہ ہی پوری قوم کا حوصلہ پست کر دیتا ہے، اور کہیں ایک جملہ ہی قوم کو متحد کر کے حوصلے اور ہمت کی راہ دکھا دیتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسے ہی لیڈر تھے۔ بلند ہمت، مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے۔ جنھوں نے اپنی تقریروں سے قوم میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ خود دشمن سے اعصابی جنگ لڑی اور پوری قوم کو بھی اس لڑائی کے لیے آمادہ کیا۔ اگر قائداعظم کسی بھی مرحلے پر ہمت چھوڑ بیٹھتے، تو یہ ناکامی صرف قائداعظم کی اپنی ذات تک محدود نہ رہتی، بلکہ پوری قوم کو مایوسی اور شکست کی طرف دھکیل دیتی۔دنیا کی محبت انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ جب کہ موت کی یاد جہاں دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے۔ وہیں انسان میں ہمت و حوصلہ پیدا کر دیتی ہے۔ہماری کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ اپنی ہمت اور حوصلہ قائم رکھیں، پر امید رہیں۔ دوسرے انسانوں کو بھی امید کی راہ دکھائیں اور ان کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بنیں۔ہمت نہ ہاریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply