• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحریک شناخت کے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کے 3 نکات/اعظم معراج

تحریک شناخت کے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کے 3 نکات/اعظم معراج

پچھتر سال میں پندرہ بار انتحابات میں( 3) تین انتحابی نظاموں کے تجربات غیر مسلم پاکستانیوں پر ( 6)چھ بار کئے گئے۔جسکی تفصیلات و خوبیوں خامیوں کی تفصیلات تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضآ کار کتابوں ،کتابچوں، قومی و کمیونٹی کے اخبارات رسائل پنفلٹس، پوسٹرز،وڈیو کلپس، ٹی وی انٹرویوز، ؤ دیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے بیان کر رہےہیں ۔
ان پچھتر سال کے تجربات اور پاکستان کے معاشرتی ، سیاسی و جمہوری معروضی حالات کے بغور مطالعہ سے یہ مطالبہ اور مکمل لالحہ عمل تیار کیا گیا ہے ۔۔کہ اگر حکومت و ریاست پاکستان غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینا چاہتی۔۔ اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے۔۔تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔
”کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور صرفِ جداگانہ طریقہ انتحاب سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر سماجی طور پر اچھوت اور سیاسی شودر بن گئے تھے ۔ جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماﺅں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں ۔اس لئے جو بھی قومی سیاسی جماعت اس مسلئے کو حل کرنے کا عندیہ دے گی وہ نہ صرفِ تقریباً 90 لاکھ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے تقریباً 45لاکھ ووٹروں اور قومی ؤ بین الاقوامی میڈیا کی ہمدردیاں بھی حاصل کرے گی۔بلکہ ان ووٹرز جو پاکستان کی ہر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے حلقے میں موجود ہیں۔۔ لیکن 15سے 20 قومی اور 40سے 50پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتحابی نتائج پر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ انکی ہمدردیوں کی بدولت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اتنی اپنے ووٹ بینک کے علاؤہ یہ اضافی نشستیں بھی حاصل کرے گی۔

1 ۔ ہر غیر مسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی،صوبائی، ضلعی،تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اورجنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔ 2001 میں اسی خیال سے دوہری نمائندگی کے نظام کو بحال کیا گیا تھا تاکہ ہر مذہبی اقلیت کی مذہبی شناخت پر نمایندگی کو ایوانوں میں یقینی بنایا جائے ،لیکن اس انتحابی نظام کے اس مثبت پہلو کے ساتھ اس کا تاریک پہلو یہ ہے،کہ اس نظام میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہے۔
2۔ دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لئے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔گو کہ اس نظام سے جڑا اس کا دوسرا حصہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے لئے بہت ہی مضر تھآ، وہ
مذہبی اقلیتوں کو قومی سیاست، معاشرے، سماج سے کاٹ کر اچھوت اور سیاسی شودر بناتا تھا
اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یوسی سطع سے لے کر قومی اسمبلی تک تک جو بھی نمائندہ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرے وہ انھی کے ووٹوں سے منتخب ہوں۔۔۔
3 ۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینٹ،قومی،صوبائی اسمبلیوں میں ہو۔جس کے لئے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اورسندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے۔ وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان ،کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لئے درکار تعداد سے بہت کم ہے۔ وہاں آئین کے دیباچے/تمہیدِ (preamble)کے اس پیرا گراف کی بنیاد پر مذہبی شناخت پر اقلیتی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
”ترجمہ:جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے“۔ اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہو گی اوریہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنے گی۔
دوہرے ووٹ کے مطالبے کو ان تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی نمائندگی یقینی ہو۔ اقلیتی سیاسی و سماجی ورکروں کو اس مطالبے کو بخوبی سمجھ کر اس کے لئے اس یقین سے کوشش کرنی چاہیئے ۔۔ کہ یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کسی بھی سیاسی جماعت، گروہ یا ریاست، حکومت کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوگی۔نیز یہ آئینی ترمیم ملک وقوم کے استحکام کی بھی ضمانت ہوگی۔ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔چاروں صوبوں کے ساتھ اسلام آباد سے بھی اقلیتوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی دی جائے گی۔ جس سے اقلیتی سینٹرز کی تعداد 5ہوجائے گی۔قومی اسمبلی کی تعداد 10 سے بڑھ کر 19ہوجائے گی۔ جبکہ چاروں اسمبلیوں میں موجودہ ایم پی ایز کی 24 نشستیں بڑھ کر 33 ہوجائیں گی ۔یوں مجموعی طور پر 5 پانچ سینیٹر ،19ایم این ایز اور 33 ایم پی ایز ملا کر یہ تعداد 38سے 57 ہوجائے گی۔۔۔اس مطالبے کا مکمل لالحہ عمل وحلقہ بندیوں کی تفصیل کے کس صوبے سے کتنی ایم این ایز اور کتنی ایم پی ایز کی نشستیں ہونگی ۔۔اور کن دلیلوں سے ہونگی پرھنے کے لئے کے لئے آپ تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے کسی بھی رضا کار سے رابط کر سکتے ہیں ۔
وہ آپ کی فکری معاونت و راہنمائی کے لئے حاضر ہیں۔
تحریک شناخت زندہ باد …. پاکستان پائندہ باد

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply