سابق فاٹا کو طالبانستان بنایا جارہا ہے؟ ۔۔عامر حسینی

فاٹا میں طالبان کی عملداری سے سابق کُرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، خیبر ایجنسی میں شیعہ مسلمان آبادی، صوفی سُنی مسلمان آبادی، اقلیتی مسیحی اور سکھ آبادی، طالبان سے اختلاف رکھنے والے افغان مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا؟
قومی اسمبلی، وزرات خارجہ کے بقول کو ان مذاکرات بارے کچھ پتا نہیں (یا یہ محض فیس سیونگ ہے؟)
مسلح افواج کا ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر تین ہفتوں سے کہہ رہا ہے وہ اس بارے معلومات جمع کررہے ہیں پھر جواب دیں گے
موجودہ حکومت میں طالبان ازم کی مخالف ہونے کی دعوت دار سیاسی جماعتوں کی خاموشی کا مطلب کیا ہے؟
پشاور میں افغان طالبان کے ستائے افغان مہاجر فنکاروں کی گرفتاریاں اور طالبان کی دھمکیاں…. کیا معانی رکھتی ہیں؟
کیا موجودہ حکومت نے افغان پالیسی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے معاملات کا اختیار کُلی طور پر عسکری اسٹبلشمنٹ کے پاس رہنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے؟
وفاقی وزیر خارجہ عالمی برداری کو جس ترقی پسند خارجہ پالیسی کی نوید سُنا رہے ہیں زمینی حقائق تو اس کے برعکس خبر دے رہے ہیں
کیا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان بارے پالیسی اور فیصلہ کرنے کا حق کورکمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کو دے دیا ہے؟
میران شاہ میں حقانی نیٹ ورک کے مدارس اور کالعدم تحریک طالبان کے مراکز پر امارت اسلامیہ افغانستان کے جھنڈے کیا بتارہے ہیں؟
شہباز شریف بطور چیف منسٹر القاعدہ اور طالبان سے مفاہمت اور صلح کی خفیہ کوشش کرتے رہے ہیں کیا اب بھی وہ اسی سوچ کے علمبردار ہیں؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے مابین غیرمعینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے اعلان کی خبریں آرہی ہیں- کہا جارہا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور افغانستان کے صوبےننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ بین الاقوامی زرایع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پشاور میں کورکمانڈر تعینات پاکستان آرمی کے جنرل فیض حمید کی قیادت میں پاکستانی حکام نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈروں سے مذاکرات کیے۔ جبکہ افغانستان کی طالبان حکومت میں وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے موجودہ سربراہ سراج الدین حقانی افغان حکومت کی طرف سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان ثالثی کے فرائض سرانجام دیتے رہے جس کی تصدیق افغان طالبان حکومت کے وزیر اطلاعات و نشریات اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹوئٹ کے زریعے بھی کی تھی – پاکستان کی موجودہ حکومت ، پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان ادارے، وزرات خارجہ آفس نے اب تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان جنھوں نے طالبان کے حوالے سے اپنی ہمدردی کو کبھی نہیں چھپایا بطور وزیراعظم اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی فوج اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات ہورہے ہیں جس پر اپوزیشن جماعتوں میں سے عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پی ڈی ایم اور وزیرستان سے منتخب اراکین قومی اسمبلی محسن داورڈ اور علی وزیر کی طرف سے مخالفانہ بیانات آئے تھے تب اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی گئی تھی – وفاق میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت ہے جس میں شامل اکثر جماعتیں طالبان آئیڈیالوجی کے خلاف ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان افغان طالبان امارت اسلامیہ کی تو اعلانیہ حمایت کرتے ہیں لیکن وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مبینہ نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کی پاکستان میں حکمت عملی سے اختلاف رکھتے ہیں- پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت پر یل الزام لگتا رہا ہے کہ اس کے اندرون خانہ طالبان سمیت کالعدم تنظیموں کے دھڑوں سے تعلقات رہے ہیں- دیکھا جائے تو اس وقت وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ہیں جو اپوزیشن میں رہ کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے کسی بھی سطح پر مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور انھوں نے سابق حکومت کے دور میں پاک فوج اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات پر اعلانیہ مخالفانہ ردعمل دیا تھا- وہ وزیر خارجہ بننے سے لیکر اب تک امریکہ، یورپ ، چین، ترکی کے دورے کرچکے ہیں اور اس موقعہ پر انھوں نے عالمی رہنماؤں کے سامنے پاکستان کا جو موقف رکھا ہے وہ موقف تو تحریک طالبان پاکستان سے ان نکات پر مذاکرات کی اجازت نہیں دیتا جن پر مذاکرات کے پہلے دور میں اتفاق کیا گیا تھا- رکن قومی اسمبلی محسن داورڈ نے گزشتہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات سے قومی اسمبلی بالکل بے خبر ہے۔ انھوں نے اس معاملے کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا تھا- روزنامہ بیٹھک ملتان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا “جو خبریں موصول ہورہی ہیں جن کے مطابق مذاکرات کے پہلے دور میں کالعدم ٹی ٹی پی کے 60 فیصد قیدی رہا ہوں گے جو سب کے سب دہشت گرد ہیں – سابق فاٹا سے 50 فیصد پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا انخلا ہوگا- کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مشاورت سے سابق فاٹا میں شرعی احکامات نافذ کیے جائیں گے – مطلب طالبان برانڈ اسلام سابق فاٹا کے علاقوں میں نہفذ کردیا جائے گا- ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو پولیس اور نیم فوجی ملیشیاؤں کا حصّہ بنادیا جائے گا- ٹی ٹی پی ایک مذہبی سیاسی قوت کے سابق فاٹا میں کام کرے گی – اور سابق فاٹا کو کے پی کے سے پھر الگ کردیا جائے گا اور پرانا اسٹیٹس بحال کردیا جائے گا- ” محسن داوڑ نے الزام لگایا کہ پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ تحریک طالبان پاکستان سے جن شرائط پر بات چیت کرنے جارہی ہے اس سے یہ خطرہ صاف نظر آرہا ہے کہ سابق فاٹا میں ٹی ٹی پی کی عملداری کو غیراعلانیہ تسلیم کیا جارہا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ میران شاہ شمالی وزیرستان میں حفانی نیٹ ورک کے قائم مدارس نے اپنی عمارتوں پر امارت اسلامی افغانستان کے چھنڈے لہرارکھے ہیں اور وہ کالعدم ٹی ٹی پی کی مکمل سرپرستی کررہے ہیں- انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ بلوچستان میں پاک- افغان سرحد میں افغاستان کی طرف اور پاکستان کے پڑوس میں واقع صوبہ ننگر ہار میں کالعدم تحریک پاکستان کے 5 ہزار سے زائد جنگجو موجود ہیں اور انہیں افغان طالبان امارت اسلامی میں طاقتور عہدے رکھنے والے حقانی نیٹ ورک کی مکمل حمایت اور سپورٹ حاصل ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ایمل خان ولی نے پاکستانی حکام اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی پراسراریت اور پاکستانی حکام کی طرف سے اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے پر اظہار ناراضگی کیا ہے۔ پاکستان تحفظ پشتون موومنٹ کے سربراہ مظور پشتین نے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات بارے پاکستانی حکومت کی حاموشی پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا قبائلی علاقوں کو کالعدم تحریک طالبان کے حوالے کرے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور اس سے قبائلی پشتونوں کی نسل کشی میں اور اضافہ ہوگا، جبری پشتون بے دخلی کے رجحان میں اضافہ ہوگا- وزرات خارجہ آفس کے حکام سے پردے کے پیچھے ہونے والی غیر سرکاری گفتگو کے دوران پتا چلا کہ وڑات خارجہ آفس کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات بارے لاعلم ہے۔ کون سے پاکستانی حکام ان مذاکرات کا حصّہ ہیں اس بارے علم ہونے سے بی وزرات خارجہ آفس انکاری نظر آتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان ادارے نے ایک ہفتہ قبل میڈیا می ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈروں کی افغانستان میں افغان طالبان کے ہاتھوں میں تحویل کی خبریں آنے پر روزنامہ بیٹھک نیوز ملتان کے سوال پر کہا تھا کہ اس حوالے سے معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں جو پتا چلے گا بتادیا جائے گا – تاحال آئی ایس پی آر نے بھی اس معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی عسکری قیادت کالعدم مسلح جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں سے مذاکرات اور امن معاہدے کرکے دیکھ چکی ہے جس میں پاکستان کے جمہوری وفاقی پارلیمانی آئین سے ابھرنے والے تصور ریاست پر سمجھوتہ کرتے ہوئے رجعت پرست بنیاد پرستانہ تصور مذہب پر مبنی اقدامات کے نفاذ کی اجازت دی گئی جس سے امن قائم ہونے کی بجائے بیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی شدید ہوگئی – جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے لیے وہ علاقے قتل گاہوں میں بدل گئے۔ پاکستان تحریک طالبان پاکستان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر جس سمجھوتے کی طرف بڑھ رہا ہے وہ زیادہ دیر قائم نہی رہے گا-

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply