من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی/سلیم زمان خان

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلوی)
ترجمہ: میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔

اللہ کریم نے اپنے نبی کریم ﷺکی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا ۔۔
جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
(فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے)
اسی لئے اللہ کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو کہا کہ میں تم سے راضی ہو گیا ہوں کہ انہوں نے اس حدیث کے مترادف اپنے اعمال سے اللہ کی اس رحمت کو پا لیا کہ

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز

لیکن جن کے فیض سے صحابہ کرام کو یہ مقام ملا اور رہتی دنیا تک جب بھی کوئی ولی اس مقام کو پہنچے گا ،دراصل وہ اس محبت سے فیض یاب ہو رہا ہو گا جو اللہ کریم نے اپنے محبوب کریمﷺکے ساتھ کی۔۔
ذرا ترتیب سے کچھ کیفیات پر نظر ڈالتے ہیں ۔۔ کہ رب نے اپنے محبوب سے کیسی محبت فرمائی اور پھر اس کا اظہار کیسے فرمایا۔۔

●خدا لامکاں میں ہے۔۔ اپنے نبی کو لا مکاں میں بلایا،نہ صرف بلایا بلکہ قریب کیا اور قریب کیا کہ درمیان میں دو کمانوں کے جوڑے جانے پر جو فاصلہ رہ جاتا ہے اتنا فاصلہ رہ گیا ۔۔ پھر ارشاد کیا کہ نہیں اس سے بھی کم فاصلہ یعنی دونوں باہم مل گئے۔۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى
پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم۔
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى
پھر اس نے اللہ کے بندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے ( سورہ النجم 9،10)

●اور پھر اس لامکاں تجربہ میں اپنے محبوب کی تعریف۔ فرمائی کہ دل بھی مطمئن تھا کہ آنکھیں جو دیکھ رہی تھیں دل قابو میں تھا۔۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی
دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے دیکھا ( النجم 11)

●وہاں اپنے محبوب کی آنکھوں کی تعریف فرمائی کہ خدا کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ اس روز مجسم نظارہ بھی کیا اور آنکھیں چندھیا ئی بھی نہیں اور نہ حد سے زیادہ پھیلیں۔۔
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم، 53: 17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ یٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
’’بےشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
(النجم، 53: 18)

●اپنے کلام کو اپنے محبوب کی زبان اقدس سے ادا فرما کر کہا یہ میرے محبوب کا قول ہے۔۔۔
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ.
(الحاقہ، 69: 40)
’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)‘‘۔
یہ کتنی عظیم بات ہے کہ خدا نے اپنے کلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے تعبیر فرمایا
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔
(النجم، 35: 3-4)
یعنی “میں نہیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا۔۔۔”

●جنگ بدر میں اپنے محبوب کو ایک دن پورا بھی میدان جنگ میں نہی رہنے دیا ۔۔اور ایک مٹھی مٹی جب اپنے محبوب کے ہاتھوں پھینکی تو کہا یہ ہاتھ آپ کا نہیں تھا یہ مٹی آپ نے نہیں پھینکی بلکہ یہ میں نے پھینکی۔۔
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ۪-وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ
ترجمہ: تو تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے حبیب! جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی( الانفال ،18،17)

● پھر جب سب درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو فرمایا محبوب وہ آپ کے ہاتھ پر نہیں میرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔۔ ہمیشہ عاشق محبوب کی خاطر اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہے۔۔ لیکن مالک نے اپنے محبوب کی خاطر ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ کہہ کر اپنی ذات کو تشبیہ دی۔۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.
(الفتح، 48: 10)
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔

●پھر فرمایا کہ محبوب کے شہر کی قسم جس میں محبوب رہتے ہیں ۔ آپ کی اولاد کی قسم ۔۔ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ جب آپ ان کے درمیان ہیں تو میں انہیں عذاب نہیں دوں گا۔۔

لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ○وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ
ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم۔جبکہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہو ( سورہ البلد 1،2)

● پھر اپنے محبوب کی عمر کی قسم کھائی۔۔
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں‘‘۔
(الحجر، 15: 72)

● اپنے محبوب کے قیام و رکوع اور نشست و برخاست کا ذکر:

الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ. وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ.
(الشعراء، 26: 218۔129)
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیں اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لمحہ لمحہ آپ کو تکتے رہتے ہیں آپ کو اپنی نگاہوں میں رکھتے ہیں

● اپنے محبوب کے اخلاق کی تعریف یوں کی

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

ایک نظر دوبارہ ان تمام آیات کو بغور پڑھیں۔۔ اور اوپر حدیث قدسی کو دیکھیں۔۔ اللہ کریم نے اپنے محبوب نبی کریمﷺکے ہاتھوں، آنکھوں، دل ،عمر ، شہر اور ان کے ہاتھ سے دشمنوں پر پھینکی مٹی تک کو اپنا عمل قرار دیا۔

حتکہ جنہوں نے اللہ کے محبوب سے محبت کی انہیں ان کی زندگی میں اپنی رضا اور جنت کا مژدہ سنا دیا اور انہیں رضی اللہ عنہ کہہ کر تا قیامت ان کا درجہ ہر انسان سے بلند کر دیا۔۔

اور تمام عالم انسانیت کو تا قیامت محبوب بننے کا کمال فارمولہ عطا کر دیا ۔۔ کہ

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
31. (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے( آل عمران 31)

اور اب آخری میں تو انتہا ہو گئی پیار کی کہ ایک روز حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کرحضور رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہﷺ ابوہریرہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے عمر! ابوہریرہ کیا کہتا ہے؟ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے کہ ابوہریرہ کہتا ہے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سچ کہتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ وہ کیسے؟ تو اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: “میں رحمان کا شیشہ ہوں، جس نے مجھے دیکھا، پس تحقیق اس نے اپنے رب کو دیکھا”۔ (بحوالہ: تفسیرروح البیان)
● حضرت منصور حلاج نے جب” انا الحق ” میں حق ہوں کا نعرہ لگایا تو ان کو قتل کی سزا دی گئی ۔۔ کہ خدا نے یہ مقام ان کے شایان شان نہیں رکھا تھا۔۔ یہ تو نبی مکرم نے اپنے لئے ارشاد فرمایا کہ “قال النبي صلى الله عليه وسلم:” من رآني فقد راى الحق” (بخاری،حدیث نمبر:٦٩٩٦)
ترجمہ : حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے مجھے دیکھا، اس نے حق دیکھا۔“
تو جو چاہتا ہے کہ اس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جائے ، اس کی زبان اللہ کہ زبان بن جائے ،اس چلنا ،اس کا دیکھنا سب اللہ کا جائے۔۔ تو اسے اللہ کے محبوب کا رنگ ادا اختیار کرنا ہو گی ۔۔ اسی کو اللہ کریم نے اپنا رنگ کہا ہے۔۔
صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
ترجمہ: ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھالیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں ۔
( 138 البقرہ)

اور جن پر اللہ اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے انہی کے لئے اللہ کریم نے اپنے محبوب کو روف الرحیم فرما دیا ۔۔۔

لَـقَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ عَزِيۡزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيۡصٌ عَلَيۡكُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ۞
ترجمہ:بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے ہیں تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت شاق ہے۔ تمہاری فلاح پر وہ بہت حریص ہیں مومنوں پر بہت شفیق (روف) اور رحیم ہیں۔ (128 التوبہ)

وہ دانائے سُبل،ختم الرُّسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغِ وادئ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن’ وہی فرقاں’ وہی یٰسیں’ وہی طٰہٰ

کائنات میں موجود ہر استاد ،مرشد جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے۔۔ جب تک وہ اللہ کے رنگ یعنی نبی کریمﷺ کی اداوں، سنتوں کا مجموعہ نہیں بن جاتا ۔۔ اپنے کسی مرید کسی شاگرد کو
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
نہیں کہہ سکتا۔۔ کیونکہ رنگ تمام کائنات میں تا قیامت نبی کریمﷺ کا ہی اللہ کو پسندیدہ ہے۔۔

کی محمداﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں​
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

سلیم زمان خان
نومبر 2023

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply