وجاہت مسعود، “ہم سب”، “مکالمہ” اور میں

"ہم سب" کو باقاعدگی سے اس لئے نہیں پڑھتاکیونکہ دو تین ایسے بندے یا مصنفین جن سے میرا نظریاتی اختلاف ہے، بدقسمتی سے وہ بھی میری طرح پشتون ہیں اور اختلافات ہمارے ہاں دشمنی کی ابتدا ہوتی ہے۔
وجاہت مسعود صاب سے لاہور میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں ملاقات ہوئی جہاں ہم دونوں مدعو تھے۔ اس دن جب وجاہت مسعود صاب کے گلے لگا تو منکشف ہوا کہ وجاہت صاب اور عدنان کاکڑ کس قبیل کے لوگ ہیں۔ دونوں انسان دوست ہیں اور انسانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا یہی وصف ہمارے تنگ نظر معاشرے کو ان کیساتھ دشمنی کا جواز رکھنے کیلئے کافی ہے۔
وجاہت مسعود صاب ایک استاد ہے، ایک باپ ہے اور عدنان کاکڑ ایک طالب علم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وجاہت صاب کسی کیساتھ زیادتی کر نہیں سکتے۔ بھلا ایک باپ اپنی اولاد کیساتھ ظلم یا زیادتی کیسے کرسکتا ہے۔ کبھی کبھار تو باپ بھی ہاتھ اٹھا لیتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ باپ بچوں پر ظلم کرتا ہے، بلکہ تھپڑ کا مطلب اصلاح ہوتا ہے۔
میں نے لدھیانوی کا انٹرویو پڑھا اور باربار پڑھا تاکہ پتہ تو چلے کہ کون سی ایسی دشمن ملک باتیں ہیں، جس پر ہر طرف سے واویلا اور لعن وطعن ہورہا ہے۔ تاکہ میں بھی اس پر کچھ چٹ پٹا لکھ ماروں۔ مگر دو تین دفعہ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ اس میں کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں جس پر اعتراض کیا جاسکے۔
لدھیانوی نے فقط یہی کہا ہے وہ سنی شیعہ اختلافات پر یقین نہیں رکھتا۔ اچھی بات ہے جناب اگر وہ کہہ رہا ہے کہ اپنے جذباتی پیروکاروں کی وہ ذہنی بلوغت کررہا ہے، تو کیا وہ غلط کررہا ہے؟ اگر جھنگ جیسے علاقے میں جہاں راکٹ داغنا اور بم دھماکے معمول کی بات ہوتی تھی، اگر اب نہیں ہورہی تو یہ کیا بری بات ہے؟
بات یہ ہے کہ اگر ریاست کے پاس لدھیانوی کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو اسے قرار واقعی سزا دیں۔ اگر وہ نہیں ہیں تو ہم بطور معاشرہ مشعال خان اور فرخندہ کو تو جلا کر راکھ ہی کررہے ہیں، سو یہاں بھی اپنا معاشرتی حق استعمال کیا جائے۔ کیونکہ ملک کا قانون کسی اور کے بستر کا زینت بن چکا ہے۔
ایک ادارہ جو نشرواشاعت کا ذمہ دار ہے اس کو حق ہے کہ وہ کسی کا بھی انٹرویو کریں۔ فیض اللہ خان نے بھی تو یہی کیا تھا۔ ورنہ الطاف حسین، محمود خان اچکزئی اور باچا خان بابا کا نام ہم اتنے احترام سے کیوں لیتے ہیں؟ حالانکہ ریاست کہہ رہی ہے کہ وہ غدار ملت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ لینن یا مارکس کے نظریات جو بقول مسلمان کے، اسلام سے متصادم ہیں، ہم کیوں پرچار کررہے ہیں۔ کسی ادارے کا کسی شخص کے قول و فعل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر ادارہ منصف کا کردار بھی ادا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ صحافتی اصولوں سے متصادم ہیں۔
پاراچنار میں کتنے شیعہ مرے اور کتنے سنیوں کو مارا گیا۔ یہی کھیل پورے پاکستان میں کھیلا گیا۔ کیا ایک صحافتی ادارے کا یہ فرض ہے کہ وہ نام لیکر آپکو بتا دیں کہ ان معاملات میں کس کا کتنا کردار تھا؟ یقیناً نہیں۔ حالانکہ ہم سب کو معلوم ہے یہ کردار کہاں تخلیق ہوتے ہیں۔ ملک میں لاتعداد ادارے موجود ہیں جن کا کام مجرمین اور سہولت کاروں کا تعین کرنا ہوتا ہے، میڈیا کا کام صرف خبر دینا ہوتا ہے موقف نہیں۔
"ہم سب" نے بھی یہی کیا۔ اس نے بھی ایک مشہور و مخصوص رہنماء کی بات چیت من و عن چھاپ دی۔ اب آپ کا یہ استدلال کہ وجاہت مسعود، وصی بابا اور عدنان کاکڑ کو لدھیانوی صاب کو ماردینا چاہیئے تھا، انٹرویو نہیں کرنا چاہئے تھا، تو جناب یہ کہلاتی ہے انتہاءپسندی، جس میں مذہبی اور لبرل کی تفریق ہر گز نہیں ہوتی۔
پیٹر ٹی کولمین کہتے ہیں "انتہا پسندی نفسیاتی مرض ہے جس کے باعث انسان اپنے روزمرہ کے معمولات میں برداشت، رواداری اور اعتدال کی ہر حد پار کرجاتا ہے۔
ایسے میں وہ نہ صرف اپنی سوچ، نظریہ اور عقیدے کو برحق قرار دیتا ہے بلکہ انہیں دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے".
خود سے یہ سوال کیجیئے اور ایمانداری سے بتایئے کہ کہیں آپ لبرل ازم کی شکل میں انتہاءپسند تو نہیں ہوتے جارہے ہیں۔ مذہبی جنونیوں کی باتیں تو جانے دیں صاب کیونکہ ان کا احسان اللہ احسان تو اب ہمارا داماد بنا بیٹھا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply