• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سوویت لیڈر نکیتا خروشیو کی منطق/روسی سے ترجمہ : ڈاکٹر مجاہد مرزا

سوویت لیڈر نکیتا خروشیو کی منطق/روسی سے ترجمہ : ڈاکٹر مجاہد مرزا

دنیا کبھی جوہری جنگ کے اس قدر قریب نہیں ہوئی تھی جتنی کہ 1962 کے موسم ِخزاں میں۔ امریکہ کے ساحل سے کلومیٹروں کی دوری پر واقع کیوبا میں غیر متوقع طور پرسوویت میزائل اور ایٹم بم گرانے والے جنگی طیارے پہنچ گئے تھے۔ نزدیک ہی سمندر میں سوویت جوہری آبدوزیں گھومنے لگی تھیں۔ یہ سوویت رہنما نکیتا خروشیو کا، 1961 میں درمیانی طوالت تک مار کرنے والے امریکی میزائلوں اور جوہری وارہیڈز کو ترکی میں اتارے جانے کا جواب تھا۔ ان میزائلوں کی مار کا علاقہ تقریباً  ڈھائی ہزار کلومیٹر تھا، یوں یہ آسانی سے ماسکو کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ سوویت رہنما نے اس خطرے کو اپنی ذاتی اہانت کے طور پر لیا تھا۔

تین برس قبل ہی، فیدل کاسترو نے انقلاب کے راستے کیوبا میں عنان اقتدار سنبھالی تھی۔ امریکہ نے ان کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس چھوٹے سے ملک کا راستہ روک لیا تھا۔ کیوبا کی حکومت نے امداد کی خاطر ماسکو سے رجوع کیا تھا۔ سوویت یونین نے امریکہ کی جگہ کیوبا سے شکر خریدنا شروع کر دی تھی۔ کیوبا میں تیل سے بھرے ٹینکر پہنچنے لگے تھے اور وہاں صنعتیں قائم کیے جانے کی خاطر بہترین سوویت ماہرین بھجوائے گئے تھے۔

امریکیوں کو یہ صورت حال بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی اور انہوں نے جارحیت کا راستہ اختیار کرکے فیدل کاسترو کو معزول کرنے کی تیاری کر لی تھی۔
خروشیو نے امریکہ کی امکانی جارحیت سے کیوبا کا تحفظ کرنا اپنا فرض سمجھا تھا۔ ترکی میں نصب امریکی میزائل ویسے بھی ان کے لیے کابوس کی صورت اختیار کر چکے تھے۔
واقعات میں مزید پیشرفت کسی لڑائی والی فلم کی طرح ہوئی تھی۔ 1962 کے پورے موسم گرما میں سوویت یونین سے کیوبا مال بردار جہاز جاتے رہے تھے، جن کے اندر شہری ماہرین کے بہروپ میں بیسیوں ہزار سوویت فوجی وہاں پہنچائے گئے تھے۔ ٹینکروں میں سوویت میزائل اور جوہری وارہیڈز چھپا کر بھیجے گئے تھے۔ ان جہازوں کی حفاظت جوہری آبدوزیں کیا کرتی تھیں۔ کیوبا میں فوج کے قوی دستے خفیہ طور پر پہنچائے جانے کا کام بہت عمدگی سے سرانجام دیا گیا تھا۔

امریکیوں کو فوری طور پر اس کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ کیا ہو رہا ہے تو انہوں نے انتہائی قدم اٹھایا تھا۔ آخری سوویت جہازوں میں سے ایک جس میں سوویت میزائل اور وارہیڈز چھپا کر کے بھیجے جا رہے تھے، کا راستہ امریکہ کے جنگی جہازوں اور امریکہ کی جوہری آبدوزوں نے روک لیا تھا۔ یہ بحیرہ کریبین کے بحران کے عروج کے ایام تھے، کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ روسی اور امریکی بحریہ جنگ کے لیے تیار تھی، بحری فوجی دوربین کے ذریعے اپنے اپنے مخالفوں کی نگاہیں دیکھ سکتے تھے۔ دونوں ملکوں کی جوہری آبدوزوں کے کمانداروں کی انگلیاں جوہری ہتھیار داغے جانے والے بٹنوں پہ تھیں۔ اگر کسی ایک کی بھی اعصاب جواب دے جاتے تو ایک ہتھیار داغے جانے سے ہی جوہری جنگ یعنی دنیا کے ختم ہونے کی شروعات کا آغاز ہو جاتا۔

ان دنوں امریکہ اور سوویت یونین کے سربراہان کے درمیان براہ راست ٹیلیفون کا رابطہ موجود نہیں ہوتا تھا، بات پہنچنے میں منٹوں لگ جایا کرتے تھے۔ ریڈیو جو امریکہ میں سنا جا سکتا تھا رابطے کا ایک واحد کارآمد وسیلہ تھا۔ یوں ہمارے ریڈیو سٹیشن نے بحیری کریبین کے بحران میں حصہ لیا تھا۔ خروشیو نے تصادم کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دی تھی۔ خفیہ بات چیت شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر فریقین میں مصالحت ہو گئی تھی۔ ترکی سے امریکی اور کیوبا سے سوویت میزائل ہٹا لیے گئے تھے، یوں امریکہ نے کھلے عام جزیرہ آزادی جیسا کہ ان دنوں کیوبا کو پکارا جاتا تھا، کے خلاف جارحیت کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔

خروشیو کے عہد میں سوویت یونین نے خلاء کے سلسلے میں کارنامے سرانجام دے کر دنیا کو انگشت بدنداں کر دیا تھا۔ پہلی بار سیارچہ مدار میں بھیجا گیا تھا اور پہلی بار انسان کو خلاء میں پہنچایا گیا تھا۔ اپریل 1961 میں ماسکو کے سرخ چوک پر خورسندہ لوگوں کے ہجوم نے دنیا کے پہلے خلاء نورد یوری گاگارین کا استقبال کیا تھا۔ چبوترے پر ان کے ساتھ نکیتا خروشیو ایستادہ تھے۔ انہوں نے اپنی ٹوپی اپنے اونچے کیے ہوئے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور سورج کی کرنیں ان کے چہرے اور تربوز جتنے سر سے منعکس ہو رہی تھیں۔ تب لوگوں کو یہ لگنے لگا تھا کہ زندگی میں سکون آنے کو ہے اور 1980 کے عشرے میں جیسے کہ ان کے سیاسی رہنما نے اعلان کیا تھا کمیونزم کا خوش بختانہ عہد شروع ہو جائے گا۔

یہ وعدہ ایک خواب کی مانند تھا لیکن تب بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی پندرہ برس پیشتر ختم ہونے والی دوسری جنگ عظیم کے بعد ملک میں بربادی کا عالم تھا۔ ہزاروں شہر، کارخانے اور فیکٹریاں تباہ ہو چکے تھے۔ شاندار خلائی کامیابی ایک حقیقی معجزہ لگی تھی۔ خروشیو کی منطق یہ تھی کہ اگر لوگ ایسا کرنے کی قوت رکھتے ہیں تو وہ کمیونزم کے قیام کے پروگرام کو بھی عملی شکل دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس نازی جرمنی کے خلاف سخت ترین جنگ میں 1945 کی فتح اور جنگ کے بعد ملک کی بحالی کا کام خروشیو کے پیشرو یوسف ستالن کی سربراہی میں ہوا تھا۔

ستالن نے تقریباً  تین دہائیوں تک ملک کو چلایا تھا۔ ان کا اقتدار لامحدود تھا جس کی بنیاد عام امور کے علاوہ خوف اور وسیع تر دہشت رہی تھی۔ سب فتوحات اور کارنامے عوام کے نام نہیں بلکہ ذاتی طور پہ ستالن کے سر سجائے جاتے تھے۔ یہ صاحب اقتدار 1953 میں انتقال کر گئے تھے۔ تین سال بعد نکیتا خروشیو نے کمیونسٹ پارٹی کے وسیع تر اجلاس میں ستالن کی “شخصیت پرستی” پر شدید تنقید کی تھی۔ ان کی رپورٹ میں پہلی بار ستالن کے عام دباؤ کا ذکر کیا گیا تھا جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد کی تھیں۔ جلد ہی خروشیو نے زندانوں اور بیگار کیمپوں سے بے قصور لوگوں کو رہا کر دیا تھا جن پر گذشتہ برسوں میں سیاسی بنا پر مقدمات بنائے گئے تھے۔

خروشیو کو غیر ملکوں کے دوروں پہ جانا بہت پسند تھا اور اپنے اقتدار کے پہلے سالوں میں انہوں نے بہت زیادہ ملکوں کے دورے کیے تھے۔ 1955 میں انہوں نے ہندوستان کا تاریخی دورہ کیا تھا، اس کے بعد جواہرلال نہرو نے سوویت یونین کا جوابی دورہ کیا تھا۔ دہلی، بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں سائنس و ثقافت کے سوویت ایوان کھولے گئے تھے۔ سوویت یونین میں ہندوستانی ثقافت اور سب سے پہلے ہندوستانی فلموں میں انتہائی دلچسپی دیکھنے میں آنے لگی تھی۔ فوری طور پر ڈھائی سو فلمیں خرید لی گئی تھیں۔ ماسکو میں ہندوستانی فلموں کے فیسٹیولوں کو بہت زیادہ پذیرائی ملتی تھی۔

خروشیو کے عمل جمہوریت جسے “پگھلاؤ” کہا جاتا تھا، نے نہ صرف سٹالن کی شخصیت پرستی کا سدباب کیا تھا بلکہ سرکاری سنسر کو بھی نرم کر دیا تھا۔ ادیبوں، ڈرامہ نگاروں اور فلمی ہدایتکاروں کو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ فنی آزادی مل گئی تھی۔ یہ سب بہت رومان پرور تھا۔ مگر خروشیو کو دوسروں کی رائے پسند نہیں تھی اور ان کے اپنے جنون تھے۔ مثال کے طور پر قطع نظر اس کے کہ سنسرکم کر دیا گیا تھا انہوں آوان گار مصوروں کی شدید حوصلہ شکنی کی تھی۔ مذہبی روایات کی جانب بھی ان کا رویہ معاندانہ تھا۔۔ وہ ان کے اس پروگرام میں شامل نہیں تھیں جو انہوں نے کمیونزم کو فروغ دینے کے لیے بنایا تھا۔ خروشیو نے عیسائی گرجا گھر بند کروا دیے تھے۔ انہوں نے سر عام تقریز میں کہا تھا کہ جلد ہی وہ ٹیلی ویژن پر آخری بچ رہنے والے پادری کو سامنے لائیں گے۔

“امریکہ کے برابر آ جائیں گے، امریکہ سے آگے نکل جائیں گے” یہ بات خروشیو اپنی تقریروں میں عام کہا کرتے تھے۔ کچھ سائینسی و تکنیکی میدانوں میں تو واقعی ایسا کرنے میں کامیابی ہوئی تھی۔ خلائی پیشرفت کے علاوہ سوویت کامیابیوں میں دنیا کی پہلی جوہری آبدوز بنایا جانا اور پہلا جوہری بجلی گھر بنایا جانا بھی شامل تھا۔ البتہ لوگوں کے حالت زندگی کو بہتر کیے جانے میں سوویت یونین امریکہ سے کہیں کم تر رہا تھا۔ انتظامی ڈھانچے اور معیشت میں اصلاحات کیے جانے کی خروشیو کی ناکام کوششوں نے 1960 کی دہائی کے اوائل میں سنجیدہ بحران پیدا کر دیے تھے۔

زرعی شعبے میں اصلاحات کی انکی کوشش ناکام ترین تھی، جس کو لوگ طنزاً “تب مکئی” کے نام سے پکارتے تھے۔ خروشیو نے امریکہ کی نقل کرتے ہوئے زرعی رقبے کے تین چوتھائی سے زیادہ رقبے پر مکئی بوا دی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں ہی امریکہ کے کسانوں کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ امریکہ کے برابر پہنچنے اور اس سے آگے نکل جانے کی لگن میں سوویت رہنما نے کئی سالوں تک پورے سوویت یونین میں مکئی ہی بوائی تھی۔ جنوبی خطوں میں تو اس کی فصل ہوئی لیکن ملک کے مرکزی اور شمالی خطوں میں موسمی حالات کے باعث اکثر ان کے بھٹے ہی نہیں پیدا ہوتے تھے۔ عجیب احمقانہ صوت حال پیدا ہو چکی تھی۔ روایتی فصلیں اگائی نہیں حاتی تھیں اور ہر جانب مکئی سر نکالتی دکھائی دیتی تھی۔

1963 میں سوویت یونین کو پہلی بار باہر سے گندم خرید کرنی پڑی تھی۔ ملک میں غذائی بحران پیدا ہو چلا تھا۔ کچھ خطوں میں لوگوں نے پرہجوم مظاہرے بھی کیے تھے۔ اکتوبر 1964 میں ہوئے کمیونسٹ پارٹی کے ہنگامی وسیع تر اجلاس میں خروشیو کو معزول کر دیا گیا تھا۔

ریٹائر ہونے کے بعد خروشیو شاید ہی پبلک میں ظاہر ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹیپ پر اپنی کئی جلدوں پہ مشتمل یادادشتیں ریکارڈ کی تھیں اور اپنے زمین کے ٹکڑے پر مکئی کاشت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ہاں مکئی بہت بڑی ہوئی تھی۔

خروشیو کی قبر کا کتبہ اور یادگار معروف سنگتراش ارنسٹ نی ازویسنے نے تیار کیے تھے۔ دوسرے اوان گار فنکاروں کی مانند انہیں بھی خروشیو کے عہد میں دھتکارا گیا تھا لیکن خروشیو کے ریٹائر ہونے کے بعد یہ فنکار ان چند لوگوں میں تھے جنہوں نے نہ صرف ان کی تعریف کی تھی بلکہ ان سے اچھی دوستی بھی جما لی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یادگار سفید اور سیاہ سنگ مرمر کی سلوں سے تیار کردہ ہے۔ رنگوں کی اس فنکارانہ آمیزش کے مختلف مطلب نکالے جا سکتے ہیں جیسے کہ خیر وشر کا جھگڑا، جو بیسویں صدی کے جذباتی ترین اور انتہائی ہنگامہ آراء سیاستدان کے دل میں ہوتا رہا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply