ڈام کی شام۔۔عابدمیر

ہمارا ارادہ تو گڈانی کے ساحل پر سن سیٹ دیکھنے کا تھا۔ مگر فقیر عبدالرحمان کی علم سے بھری گفتگو نے اور سسی پنوں کے احاطے میں موجود سحرخیز لمحات نے ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ یوں جب ہم وہاں سے لوٹنے لگے تو سورج ہمیں گڈانی نہ پہنچنے کی تنبیہ کر رہا تھا۔ دوستوں کے مشورے سے طے پایا کہ سورج دیوتا کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں سے اب سن سیٹ تک گڈانی پہنچنا ممکن نہیں، البتہ ڈام کے ساحل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس مشورے پہ صاد کیا گیا اور گاڑی کا رخ ڈام کی طرف ہوا۔

ڈام، وندر سے مغرب کی جانب واقع ساحلی بستی ہے۔ یہ وندر سے شاید پندرہ، بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مچھیروں کی یہ بستی مقامی لوگوں کے لیے ایک اچھا خاصا پکنک پوائنٹ بھی ہے۔ میں جن دنوں ملازمت کے سلسلے میں وندر میں تھا، ہمارے اسٹاف نے ایک دن یہاں پکنک کا پروگرام رکھا تھا۔ میں جس ہوٹل میں مقیم تھا، اس کی مسلسل بریانی کا زور میرا معدہ نہیں سہہ پایا اور اس روز پیٹ کی تکلیف نے مجھے اس شرکت سے محروم رکھا۔ میرے حصے میں ڈام کی شام دو ہزار بیس کے ابتدائی ایام میں ہی رکھی تھی شاید۔

کراچی سے آتے ہوئے جوں ہی وندر شہر کی حدود ختم ہوتی ہیں، اسی روڈ پہ بائیں طرف ایک لنک روڈ مڑ جاتا ہے۔ آدھا کچا، آدھا پکا یہی روڈ سیدھا ڈام کے ساحل کی طرف جاتا ہے۔ یہ اسی طویل بحرِ بلوچ کا ایک کنارہ ہے جو گوادر سے شروع ہو، کنڈ ملیر سے ہوتا ہوا ڈام اور پھر جیونی کی طرف نکل جاتا ہے۔ ڈام یوں تو مچھیروں کی بستی ہے، مگر اچھی خاصی آباد ہے۔ روڈ کنارے ہی پکے ڈبل اسٹوری بنگلوں کی اچھی خاصی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ اب شہر کے شور سے اکتا کر ساحلی بستیوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ بجلی، پانی سمیت انٹرنیٹ جیسی اب بنیادی ضروریات کی دستیابی بھی شاید اس بستی کی طرف آبادی کا بڑا سبب ہو۔

ڈام کا علاقہ مسلسل آبادی سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں اکثریت مقامی مچھیروں کی ہے۔ دائیں جانب اگر شہری بابوؤں کے بنگلے ہیں تو ان کے عین سامنے بائیں سمت (محکوم کی ازلی سمت) مچھیروں کی کچی آبادی کی طویل قطاریں ہیں۔ ڈام کی گلیاں طبقاتی سماج کی زبردست عکاس ہیں۔

سن سیٹ کے چکر میں ہم بھاگم بھاگ ساحل کی جانب دوڑے جا رہے تھے، سورج بھی اسی رفتار سے ساحل کی آغوش میں پناہ گزین ہوتا جا رہا تھا۔ ڈام کے ساحل پہ شام ڈھلنے کو تھی۔ بادلوں سے خالی آسمان پہ سورج مکمل دائرے میں حسین تھا مگر وہ ہمارے ساحل پہ پہنچنے سے قبل ہی سمندر کی آغوش میں جا چھپا۔ ہم جب گاڑی کنارے پر روک کر ساحل پہ اتر آئے تب تک شفق کی گہری سرخ لکیر دور سمندر کی آخری حدوں پہ نمایاں ہو چکی تھی۔

مجھے بے اختیار جیونی کا سن سیٹ یاد آیا۔ جسے دنیا کے بہترین سن سیٹس میں گنا جاتا ہے۔ ڈام بلاشبہ اس کا عشرِ عشیر بھی نہ تھا۔ ڈام کا ساحل بھی ماہی گیری کے باعث ویسا صاف ستھرا نہیں جیسا جیونی یا کنڈ ملیر پہ ملتا ہے۔ سن سیٹ دیکھنے کا آدھا نشہ تو اس کے میلے ساحل کو دیکھتے ہی ہوا ہو گیا۔ سورج کے غروب ہو جانے کے باعث سن سیٹ کی حسرت بھی ادھوری ہی رہی۔ سو، ہم نے ساحل پہ کچھ دیر چہل قدمی کی۔ کچھ عکس بندی کی اور واپسی کی راہ لی۔

ڈام کا ساحل البتہ ہمیں یوں یاد رہے گا کہ اس پہ ہم نے بہ فرمائش یار کا نام لکھا، جسے لہروں نے اپنی بانہوں میں لے کر بحرِ بلوچ کی آغوش میں ڈال دیا۔ یوں سمندر کے نمکین ہونٹ کچھ پل کو مٹھاس سے آشنا ہوئے۔ یوں آئندہ جب بھی ہم اس سمندر کو دیکھیں گے، اس کی لہروں پہ ایک ہی نام تیرتا ہوا پائیں گے۔ بحرِ بلوچ اب یار کے نام معنون ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈام پہ شام اتری تو ہم نے اسے الوداع کہا۔ یہاں ہمارے میزبان ساتھیوں کے کچھ دوست ملنے آئے۔ جن سے تازہ مچھلی کی فرمائش تھی مگر ہماری تاخیری آمد کے باعث یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ ہم ان سے اجازت لے کر روانہ ہوئے۔ ہمارے نوجوان ساتھی فرید مینگل کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے سلسلے میں اب کراچی واپس ہونا تھا۔ ہم نے اسے وندر سے وین میں بٹھایا اور بقیہ قافلہ بیلہ کی راہ پہ ہو لیا، جہاں خلیل رونجھو کے گھر پہ ایک پُرتکلف کھانا ہمارا منتظر تھا۔ دریائی مچھلی کی ہماری خواہش یہیں پوری ہونی تھی۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply