نئی اُداس نسلیں /ناصر خان ناصر

پاکستان ہو یا پاکستان سے باہر پلنے والی پاکستان نژاد نئی  نسلیں، یہ سبھی دن بدن اتنی بدلتی جا رہی ہیں کہ سخت تعجب ہوتا ہے۔ ان بچوں کے اپنے انوکھے مسائل ہیں، جن کا حل ڈھونڈنا تو درکنار، ان پر گفتگو بھی نہیں کی جاتی۔

یہ ہاتھی کمرے میں موجود ہے، کسی کو بھی اس امر سے انکار نہیں ہوتا مگر اسے جان بوجھ کر یوں اگنور کیا جاتا ہے جیسے یہ کسی کو نظر نہ آتا ہو۔ اس مسئلے کو بلی کے گو کی طرح چھپا دیا جاتا ہے۔

بیرون ممالک میں اور خصوصا ً امریکہ میں جنم لینے والے پاکستانیوں کی دوسری نسل ایک ایسے ڈیلی کنفلکٹ کا شکار رہتی ہے جو انھیں آدھا تیتر، آدھا بٹیر بنا دیتا ہے۔ بلاشبہ ٹیکنالوجی سمیت کئی  میدانوں میں آج کے بچے ہم کل کے لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔

امریکہ یا دیگر یورپی ممالک میں آن بسنے والی ہم پاکستان کی پہلی نسل والوں کو جان توڑ کر محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہماری جڑیں کوشش و کاوش کے باوجود اس نئی  اجنبی دھرتی میں دور تک نہیں جا پاتیں۔ ہم دو مختلف اقداروں کی جنگ میں بالکل سینڈوچ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہم نے  اپنے والدین کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح مغرب میں رہ کر بھی مشرقی اقدار کے حامل رہیں اور یہ ناممکن ہوتا ہے۔ وہ اسکول کالج اور گھر سے باہر کی دنیا کو مکمل مختلف پاتے ہیں تو ایسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن جاتے ہیں جسے بیان کرنا مشکل ہے۔ یہیں سے دوریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے نا چاہتے ہوئے بھی جھوٹ اور ڈبل اسٹینڈرڈ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ ماں باپ کے سامنے اور چہرہ بن جاتے ہیں، دوستوں میں کچھ اور۔

والدین بے چارے کام کر کر کے اور ڈبل نوکریاں کر کے اولاد کو ہر شے مہیا کرنے کا جتن کرتے ہوئے اتنا تھک جاتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے انہی بچوں پر مکمل توجہ دینے کا وقت ہی نہیں بچتا۔

ہمارے ایک قریبی جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے نوجوان تازہ شادی شدہ اکلوتے بیٹے نے جو خود بھی ڈاکٹر تھا، خود کشی کر کے اپنی جان لے لی۔ اپنی نئی  د لہن اور والدین کو زندہ درگور کر گیا۔ کئی  بچے ڈرگز اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، آوارہ لوگوں سے دوستیاں کر کے اپنی زندگیاں تباہ کر لیتے ہیں اور ماں باپ بے بسی سے اپنے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ مختلف مذاہب میں شادی کر لینے کا چلن تو عام ہے، جسے اکثر بے دلی سے قبول کر ہی لیا جاتا ہے کہ یہ پردیس کی لاکھوں سہولتوں کا وہ شاخسانہ اور قیمت ہے جو چکانی پڑتی ہے۔ سینے پر پتھر رکھ کر اولاد کو گلے سے لگا لیا جاتا ہے۔ مشہور یہ کر دیا جاتا ہے کہ بچوں کے امریکن جیون ساتھی نے اسلام قبول کر کے شادی کی ہے مگر تلخ حقیقت دراصل یہ ہوتی ہے کہ پاکستانی بچے اپنے والدین، مذہب اور مشرقی اقدار سے باغی ہو کر اسے ترک کر چکے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہی امریکہ کو میلٹنگ پاٹ کہا جاتا ہے کہ یہاں آ کر بسنے والوں کی دوسری یا تیسری نسل بمشکل ہی اپنی نسلی، مذہبی اور تہذیبی اقدار کو بچا پاتی ہے۔ تیسری نسل تک آتے آتے وہ مکمل امریکن بن چکے ہوتے ہیں جس میں  اپنے باپ دادا کی زبان، رہن سہن، مذہب اور دیگر معاشی و معاشرتی اقدار سے بالکل اجنبی ہو چکے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم گفتگو اور ریسرچ کی گئی  ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply