ڈی این اے ٹیسٹ سے حسب نسب کی شناخت/عبدالسلام(انڈیا)

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ نسلی طور پر کتنے فیصد ہندوستانی نسل سے ہیں، کتنے ترکی ہیں، کتنے وسط ایشیائی ہیں، کتنے مشرق بعید سے ہیں؟ جی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ڈی این اے کا موروثی ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔

ڈی این اے موروثی ٹیسٹ یعنی DNA ancestry tests نے حالیہ برسوں میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے، یہ  ٹیسٹ مختلف افراد کو ان کی آبائی جڑوں، نسلی شناخت، اور یہاں تک کہ دور کے علاقوں کے رشتہ داروں کے ساتھ ممکنہ نسلی تعلق کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی جینیاتی ساخت کی بنیاد پر ممکنہ بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسی معلومات احتیاطی تدابیر کرنے میں معاون ہوسکتی  ہیں۔

کچھ کمپنیاں ہیں جیسے 23AndMe، AncestryDNA، اور MyHeritage DNA ایسی کِٹس پیش کرتی ہیں جو صارفین سے تھوک کے نمونے  وصول کر کے ان میں سے ڈی این اے حاصل کر کے ان کا پروفائل تیارکرتی ہیں۔ یہ ٹیسٹ فرد کے ڈی این اے کے مخصوص حصوں کو اسکین کرتے ہیں اور پھر دنیا بھر میں مخصوص خطوں یا آبادیوں سے وابستہ علامات یا تنوع کے ساتھ ان کے ڈی این اے کا موازنہ کرتے ہیں۔ پیچیدہ الگورتھم اور large reference databases کا استعمال کر کے یہ کمپنیاں کسی فرد کے نسلی فیصد کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ سروسز، جیسے 23AndMe صحت سے متعلق ممکنہ خطرات کی رپورٹیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ رپورٹیں ان جینیاتی تنوع  کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ پارکنسنز کی بیماری یا چھاتی کا کینسر یا دوسری ممکنہ جینیاتی بیماریوں کے امکان کو بڑھاتی ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ کسی کے ڈی این اے میں   کسی بیماری سے متعلقہ جینیاتی تنوع ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر انہیں یہ بیماری ہوگی۔ یہ صرف امکان کو ظاہر کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں آسان دستیابی کی وجہ سے اس قسم کے ٹیسٹ کافی معروف ہوگئے ہیں ،اور لوگوں میں اس حوالے سے دلچسپی بھی بڑھی ہے کہ دیکھیں   ہم نسلی طور پر کس علاقے سے کتنا تعلق رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ جدید ڈی این اے سے قدیم نسلوں کا موازنہ کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب قدیم ڈی این اے یعنی (aDNA) کی تحقیق کے بڑھتے رجحانات میں ہے۔ سائنسدان دنیا بھر میں مختلف آثار قدیمہ کے مقامات پر محفوظ ہڈیوں اور دانتوں جیسی قدیم باقیات سے ڈی این اے نکالنے اور ترتیب دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ ڈی این اے وقت کے ساتھ انحطاط پذیر ہوتے ہیں، بعض حالات، جیسے سرد یا خشک ماحول، ہزاروں سالوں تک ڈی این اے کی قلیل مقدار کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ خصوصی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے ڈی این  اے کی معمولی مقداروں کو جوڑ کر مرتب کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار ترتیب دینے کے بعد، یہ قدیم ڈی این اے ان قدیم افراد کی جینیاتی پروفائل فراہم کرتا ہے جو مختلف ادوار اور علاقوں میں رہتے تھے۔ جب آپ اپنا ڈی این اے ٹیسٹنگ کمپنی کو بھیجتے ہیں، تو آپ کے جینیاتی ڈیٹا کا موازنہ ان پرانی نسلوں کے جامع ڈیٹا بیس سے کیا جاتا ہے جس سے ممکنہ آبائی تعلق کا تعین کیا جا سکے۔

تجارتی طور پر دستیاب ٹیسٹ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کی وجہ سے جینیات کا علم عوامی سطح پر دستیاب ہوگیا ہے جو کہ جینیاتی علم کو جمہوریت  میں ڈھالنے میں  معاون ہے۔ جہاں تک صحت اور جینیاتی بیماریوں کے تعین کی بات ہے ایک عام فرد کو خود سے فیصلہ کرنے کے بجائے طبی ماہرین سے مشورہ کر کے ہی کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔

البتہ جینیاتی علم کی وجہ سے کچھ اخلاقی تحفظات اور پرائیویسی سے متعلق خطرات بھی موجود ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ خاندانی روابط تلاش کرنے یا اپنے نسب کو بہتر طور پر سمجھنے کی امید میں اپنا  ڈیٹا معلوم کرتے ہیں، لیکن رازداری(Privacy) ، ڈیٹا کی security، اور جینیاتی ڈیٹا کے ممکنہ غلط استعمال کے بارے میں خدشات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، سرکاری ایجنسیاں ضروری پرمٹ کے بغیر مختلف افراد کے ڈیٹابیس کو اپنی تفتیشوں میں استعمال کر سکتی ہیں۔ جب ایک بار ان ایجنسیوں کو اس ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو جائے تو ان ایجنسیوں میں موجود افراد بدنیتی کی بنا پر اس ڈیٹا کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے علاوہ، Identity theft میں ملوث بدنیتی پر مبنی تنظیموں سے بھی خطرات ہیں۔ اس ڈیٹابیس کو حاصل کر کے بدنیت ادارے یا افراد کسی شخص کی شناخت کو غلط طریقے سے implant کر سکتے ہیں یا جعلی ڈی این اے  کا ثبوت بھی پیش کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مزید برآں، انشورنس کمپنیوں یا روزگار فراہم کرنے والے اداروں کے لیے اس ڈیٹا تک رسائی کا امکان موجود ہے، جس کی وجہ سے جن لوگوں کے لئے جینیاتی بیماریوں کے خطرات زیادہ ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاسکتا ہے جیسے ان کے ہیلتھ انشورنس کا پریمیم زیادہ رکھا جائے یا ان کے لیے نوکری کے مواقع کم کیے جائیں۔ ابھی ہم ٹھیک سے نہیں جان پائے کہ ڈی این اے کے  ڈیٹا کا  کیا کیا ممکنہ غلط استعمال  ہوسکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply