اچھے کاموں کی تحسین کی جانی چاہیے

اچھے کاموں کی تحسین کی جانی چاہیے
مولانامحمد جہان یعقوب
کسی بھی جماعت کا کارکن ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اب اس جماعت کے لیڈر کی ہر بات کو ماننا لازمی اور اس سے اختلاف خواہ دلیل کی بنیاد پر ہی ہو،جرم عظیم بن جائے۔کسی مکتب فکر سے وابستہ ہونے کا بھی یہ منشا ہرگز قابل قبول نہیں ہونا چاہیے کہ اب اس مکتب فکر کے مقتدا وپیشوا،خواہ وہ ایک ہویا زاید ہوں،کی ہر بات کو ماننا ضروری اور اس سے اختلاف کرنا ناقابل معافی جرم ہو۔کیوں کہ خطا سے پاک ذات یا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے یا اس نے یہ وصف اپنے انبیائے کرام کو عطا فرمایا ہے جو ہر قسم سے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں،یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حیثیت بعد والوں کے لیے یہ ہے کہ وہ ایمان کی جانچ پرکھ کا پیمانہ اور معیار حق ہیں اور انھیں معیار حق اس ذات باری تعالیٰ نے خود بنایا ہے جس کے ارادے کا نام وجود ہے اور جس کے علم کی وسعت نے زمین وآسمانی،زمان ومکان ،موجود ومعدوم،خشک وتر،کہ ومہ،اعلیٰ وادنیٰ،نیک وبد،انسان وحیوان اور چرند وپرند،غرض کائنات کی ہر مخلوق کے تمام احوال کا احاطہ ہر وقت کیے رکھا ہے۔صحابہ کرام کے علاوہ جتنے بھی انسان ہیں،خواہ وہ علم وعمل،کردار وگفتار،ظاہری وباطنی اوصاف اور کارناموں کے حوالے سے کتنے ہی قائق ہوں،ان کااندھا مقلد بننا کسی بھی دین ومذہب اور سماج ومعاشرے کی تعلیم نہیں ہے۔ہمیں خیرالقرون میں اس کے مظاہر بھی صاف نظر آتے ہیں۔کیا سرتاج الائمہ امام ابو حنیفہ نعمان کا یہ قول نہیں ہے:وہ بھی ہماری طرح کے آدمی ہیں،یعنی ہمیں دلائل کی بنیاد پر ان سے اختلاف رائے کا حق حاصل ہے۔کیا ائمہ اربعہ سے ان کے شاگردوں نے اختلاف نہیں رکھا؟کسی بھی دور کی کسی بھی عبقری شخصیت کے حالات کو اٹھا کر دیکھ لیجیے،کیا ان سے ان کے ماننے والوں نے ،ان کے شاگردوں نے،ان کے مردیدوں نے،ان کے کارکنوں نے،ان کے متعلقین و منتسبین نے اختلاف نہیں کیا؟آپ کا جواب یقیناًمجھ سے اتفاق کریں گے،کہ ایسا ہی تھا اور صرف تھا…نہیں،ایسا ہی ہونا چاہیے۔
برا ہوتنگ نظری ،تعصب ،عصبیت ولیڈر پرستی کا۔اس دور کے سیاسی کارکن نے،خواہ وہ کسی لبرل وسیکولر جماعت کا کارکن ہو یا کسی دینی جماعت کا ،عملی طور پر خود پر یہ بات فرض کررکھی ہے کہ میری وفاداری کا پیمانہ اپنے کاز،اپنے مسلک،اپنی جماعت،اپنے قائد اور اپنے اکابر کے معاملے میں یہ ہونا چاہیے کہ میں ان کو سراپا صفات وخوبی ،سرتاپا کمال وجمال،غلطی وخطا سے منزا ومبرہ اور ہر اعتبار سے حرف آخر سمجھوں،اور اپنے مخالف کاز، مسلک و جماعت کے قائدین و اکابرکو ہر قسم کی خوبی وکمال سے تہی دامن ،ہر قسم کی غلطی وخطا کا مرقع اور ہر برائی کی جڑ سمجھوں،قراردوں ،باور کراؤں۔آپ غیر جانب داری سے کسی بھی مسلک کے ماننے والے ،کسی بھی جماعت وپارٹی کے کارکن،کسی بھی مکتبہ فکر کے پیرو کے اقوال وگفتار اور افعا ل وکردار کا جائزہ لیں تو آ پ پر میری بات کی صداقت عیاں ہوجائے گی۔اپنے لیڈر کے غلط کی تایید وتوثیق میں بھی دلائل کے انبار اور مخالف لیڈر کے اچھے کاموں میں بھی سو سو کیڑے نکالنا،ایک عام فیشن بنتا جارہاہے۔پھر جہاں لیڈر کا کوئی دینی ومذہبی پس منظر بھی ہو ،وہاں تو اس بات کو صرف وفاداری ہی نہیں ثواب کا بھی ذریعہ ووسیلہ سمجھا جاتا ہے۔
حال ہی میں خیبر پختونخواحکومت نے صوبے میں پرائمری تک ناظرہ قرآن مجید اور میٹرک تک ترجہ قرآن مجید کو لازم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا ،تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دینی ومذہبی کارکن وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرکے اس اقدام کی تعریف کرتے ،حوصلہ افزائی کرتے اور سراہتے،کہ چلو!ہے تو سیکولر ولبرل اور مادر پدر آزاد حکومت،لیکن یہ کام بڑا اچھا کیا ہے،اتنا بڑا کام تو ہم اپنی مجلس عمل کی حکومت میں بھی نہ کر سکے تھے۔لیکن نہیں صاحب!اس طرح تو جماعتی وفاداری داؤپر لگ جاتی۔جسے ان کے قائد محترم یہودی ایجنٹ ڈکلیئر کر چکے تھے،اس طرح تو اسے مسلمانوں کا خیرخواہ ماننا پڑجاتا۔جس جماعت کو بدی وبرائی کا ستعارا،صرف اس وجہ سے بنادیا گیا تھا،کہ وہ وٹ بینک کو متاثر کررہی ہے ،اس میں اب اگر شمہ بھر بھی نیکی و نیک روش مان لی جاتی تو سابقہ قول سے رجوع کرنا پڑجاتاجو یقیناًایک کڑوا گھونٹ ہوتا،جسے کون پیے؟دور دراز تاویلات،ازکار رفتہ دلائل،خوب کو بھی ناخوب بنانے کی کوششیں،کریڈٹ کبھی کسی کے سر باندھ کر اور کبھی کسی کے سر باندھ کر حقائق سے راہ فرار اختیار کرنے کے جتن،ڈھونڈ ڈھونڈ کر خان صاحب کی بداعمالیوں کو طشت ازبام کرنا،ان کے لبرل وسیکولرنظریات کی مدفون سڑاند کو بھی کھود کرید کر نکالنا،کہ دیکھوجی!یہ توایسا آدمی ہے…اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے!
اور تو چھوڑیے،وہ دینی اسکالرز بھی قابل گردن زدنی قرار پائے جنھوں نے اس اقدام پر کے پی کے گورنمنٹ کی تحسین کی تھی،اس سے قطع نظر،کہ وہ آپ کی اور آپ کے قائد کی اس سے پہلے بارہا تایید وتحسین کرچکے ہیں،اس ایک "جرم "کی وجہ سے ان کی سابقہ نیکیاں بھی تلپٹ اور ملیامیٹ…!!
خرد کانام جنوں رکھ دیا،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
غیر جانب داری سے مجلس عمل کے دور کی صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا موازنہ کرنے والے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت نے اسکولوں میں عربی واسلامی ٹیچر کے طور پر مدارس دینیہ کے فضلاء کو جس طرح باعزت روزگار فراہم کیاہے،اس کا تصور بھی مجلس عمل کے دور میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔پشاور یونیورسٹی میں طلبہ وطالبات کی مخلوط گیدرینگ پرپابندی ہو یا مدارس کو تعمیرات کی مد میں امداد،اسکولوں میں ناظرہ و ترجمہ قرآن مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی با ت ہو یا یونیورسٹیز میں اسلامک چیئرز کے قیام کا معاملہ،یہ کارنامے اسی سیکولر ولبرل جماعت کے دور میں انجام پائے ہیں۔مجلس عمل کے دور میں اور کئی خوبیاں ہوں گی،ان سے انکار نہیں،لیکن ان سعادتوں سے ان کا نامۂ اعمال خالی ہے۔
گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کراچی کے ایک سینئرراہ نما اور پی ٹی آئی علماء ونگ کے کنوینئرخالد عمران صاحب سے بات ہورہی تھی،ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری جماعت کوئی سکہ بند دینی جماعت نہیں،لیکن ہم دینی جماعتوں ہی کو دین کا ٹھیکے دار بھی نہیں سمجھتے،ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کا جس طرح ملک کے تعلیمی،معاشی،اقتصادی،سیاسی،سماجی ،رفاہی غرض دوسرے تمام معاملات پر ایک واضح موقف ہے ،اسی طرح دینی حوالے سے بھی ہم ملک کی اکثریتی آبادی کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کے قائل ہیں،ہم دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں لازم وملزوم سمجھتے ہیں،قانون توہین رسالت،ختم نبوت،مدارس ومساجد کی حریت فکراور دیگردینی معاملات پر جس طرح کوئی دین دار کہلانے والا شخص حساس رائے رکھتا ہے ہم بھی اسے اپنے ایمان کا مسئلہ سمجھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان بھر میں علماء ونگز قائم کرنا چاہتے ہیں ،تاکہ ہم دینی معاملات پر جو بھی قدم اٹھائیں ،علماء کی راہ نمائی ہمارے ساتھ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مولانامحمد جہان یعقوب
ریسرچ اسکالر،انچارج شعبہ ٔ تفسیر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply