میٹرو منصوبہ۔۔امجد اسلام

الحمدللہ پشاور میٹرو بالآخر آباد ہوگیا۔
میں بھی اپنے ایک  دوست کے ہمراہ میٹرو کے سفر سے مستفیض ہو چُکا ہوں ، ابھی ہم بس میں بیٹھے بھی نہیں تھے کہ وہ طنزیہ بولے۔۔

کس منہ سے جاؤ گے میٹرو میں تم
شرم تم کو مگر نہیں آتی

بس میں شدید ہجوم کے باعث میں خاموش رہا ورنہ من کر رہا تھا کہ مولانا محمد احمد صاحب کے یہ اَشعار بول دوں۔

اِسی منہ سے (میٹرو) میں جاؤں گا
شرم کو خاک میں مِلاؤں گا
اُن کو رو رو کر میں مناؤں گا
اپنی پگڑی کو یوں بناؤں گا

بات اُس وقت کی ہے جب ہم میں شعور کی قِلت تھی تب سڑکوں، میٹروز، اورنج لائن ٹرین اور موٹرویز کو ہمیشہ ترقی کا پیش خیمہ سمجھتے تھے، اللّہ سلامت رکھے خان صاحب کو جِنہوں نے شعور دیا کہ بجائے یہ سب بنانے کے،  ہمیں درسگاہیں اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے  چاہئیں ، یہ بھی سِکھایا کہ میٹروز کو بنانے میں کرپشن کے نئے باب رقم ہو رہے ہیں جِن سے قوم بے خبر ہے۔

جوشِ خطابت میں میٹرو کو جنگلا بس کا نام دیا۔ جِس پر ہم نے خان صاحب کی مُحبت میں پُختہ مُہر ثبت کر کے یہ تشہیر کی کہ “آئندہ میٹرو کو جنگلا بس کے نام سے لِکھا، پڑھا، مانا، جانا اور پہچانا جائے”۔

پھر خُدا جانے کیا ہوا، چشمِ فلک نے ایک انہونی دیکھی کہ اتنے اِختلاف کے باوجُود پھولوں کے شہر پشاور میں میٹرو کی بُنیاد رکھی  گئی۔ ہم نے بہت سے سوالوں میں یہ سوال بھی اُٹھایا کہ جناب بس اِتنا بتا کر اِحسان فرما دیں کہ یہ میٹرو ہے کہ جنگلہ بس؟؟
جواب تھا نہیں، دیتا کون؟

سو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت دو نام تبدیل کئے۔
جنگلا بس کو “بی، آر، ٹی” سے
اور
پھولوں کے شہر کو “میٹرو کے شہر” سے۔

پنجاب کے دوستوں کو یہ بتا کر ہم اکثر مونچھ کو تاؤ دیا کرتے تھے کہ دیکھتے جاؤ چھ ماہ (قلیل مُدت) اور تیس ارب (کم لاگت) میں تکمیل ہو گی  اس  منصوبے کی۔

لیکن اندازہ لگانے والوں سے غلطی ہوئی یا۔۔
“یا” کے بعد کے قصّے کو رہنے دیتا ہوں، کہ جان پیاری ہے ہم کو۔
ہم سارا ملبہ اندازہ لگانے والوں پر ڈالتے ہیں، جنہوں نے غلطی سے چھ سال کو چھ ماہ اور اسّی ارب (کم و بیش) کو تیس ارب کہے تھے، غلطیاں ہو جاتی ہیں اِنسان سے، شیطان جو پیچھے پڑا رہتا ہے ہر وقت۔

شروع میں غالب اور مولانا محمد احمد کے اشعار کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا مقصد میٹرو سے اِختلاف بتلانا تھا، اختلاف رکھنا اور اِستفادہ حاصل کرنا دو الگ الگ امُور ہیں، جیسے بہت سے ہمارے “نا انصافی” بھائیوں کو نہ  تو حامِد میر ایک آنکھ بھاتا ہے، نہ  ہی جیو نیوز کا چینل، پھر بھی آپ دیکھ لیں دونوں کے آفیشل پیجز کو لائک کرنے والوں میں تحریک اِنصاف کے ورکرز بسیار ہیں۔

جیسے کہنے کو ہم سب جھوٹ، دھوکے، فریب، نا انصافی، کرپشن، مِلاوٹ وغیرہ بالکل پسند نہیں کرتے، لیکن پھر بھی یہ سب اپنی  بساط کے مطابق کرتے رہتے ہیں۔

جیسے خان صاحب کو میٹروز بنانا ہمیشہ سے ناگوار تھا، جس کا ذکر افتتاح کے موقع پر کیا بھی اُنہوں نے، اِس کے باوجُود اُنہوں نے نا صِرف اِفتتاح کیا ، بلکہ ہماری طرح اِس میں سفر بھی کیا۔

سفر کی بات آگئی۔۔ آہ کیا آرام دہ سفر ہے میٹرو کا، بس آپ کو بیٹھنے کے لئے سیٹ مِل جانی چاہیے، چائنہ نے بسیں بھیج کر ہمیں کنفیوز کیا کہ کیا واقعی یہ بسیں چائنہ کی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

یخ ٹھنڈے ماحول میں بے مقصد گھومتے وقت میں یہ بھول ہی گیا کہ پورے کے پی میں کتنے ایسے سکول ہیں کہ جن میں پڑھنے والے بچوں کے لئے بیٹھنے واسطے ٹاٹ تک دستیاب نہیں۔
کتنے ایسے علاقے ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے کوئی سکول نہیں۔
کتنے کالجز یونیورسٹی اور ٹیکنیکل سنٹرز کی ضرورت ہے  صوبے کو۔
بھول گیا کہ ہمارے اکثر مریض پشاور لاتے ہوئے رستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں کیونکہ اُن کے عِلاج کے لئے اپنے علاقے میں کوئی اِنتظام نہیں ہوتا۔
اور
بی، آر، ٹی میں بھرتیاں کون سے جادوئی طریقے سے ہوئیں؟
آرام دہ سفر نے ایسے سارے سوالات بُھلا دئیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply