لیاری۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط6

اس سے پہلے کہ لیاری میں قوم پرست سیاست کے عروج و زوال پر بات کی جائے “ککری گراؤنڈ” کا ذکر کرنا بہتر ہوگاـ لیاری کی تاریخ میں ککری گراؤنڈ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہےـ بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا “ککری گراؤنڈ” لیاری کی سیاسی تاریخ کا شاہد بھی ہے اور مشاہد بھی ـ

ککری گراؤنڈ لیمارکیٹ سے ٹاور جانے والی سڑک “صدیق وہاب روڈ” پر واقع ایک وسیع و عریض فٹبال گراؤنڈ ہےـ کراچی کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے محقق گل حسن کلمتی کے مطابق بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک لیاری ندی کی گزرگاہ موجودہ ککری گراؤنڈ تھی ـ بدلتے موسمی حالات کے باعث ندی نے راستہ بدل لیا اور یہاں ایک بڑا اور وسیع گڑھا بن گیاـ مقامی افراد کے تعاون سے انگریز حکام نے گڑھے کو کنکر ڈال کر بند کردیاـ مزکورہ جگہ لیاری کے عوام کے لیے فٹبال کا میدان بن گئی جسے کنکر بھرنے کی وجہ سے “کنکری گراؤنڈ” کے نام سے پکارا جانے لگاـ مرورِ زمانہ یہ کنکری سے “ککری” میں بدل گیاـ

بزرگوں کے مطابق برطانوی راج میں میمنوں کی دعوت پر یہاں مولانا محمد علی جوہر نے ایک بہت بڑا جلسہ کیاـ قیامِ پاکستان کے بعد اردو بیوروکریسی نے اسی مناسبت سے گراؤنڈ کا نام “مولانا محمد علی جوہر پارک” رکھا لیکن لیاری کے عوام نے اس اجنبی نام کو مسترد کر کے اس کا پرانا نام ہی برقرار رکھاـ

گراؤنڈ کو پہلی دفعہ اس وقت شہرت ملی جب جنرل ایوب خان نے محمود ہارون کی مدد سے اپنی نوزائیدہ کنونشن مسلم لیگ کا پہلا جسلہ یہاں رکھاـ محمود ہارون نے جلسے کی حفاظت کی ذمہ داری لیاری کے نامی گرامی غنڈہ بھائیوں دادل، شیرل اور بیکل برادران کے سپرد کی ـ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان نے معراج محمد خان کی سربراہی میں لیاری آکر غنڈوں سے بات کی اور ان سے جلسہ گاہ میں داخلے کی اجازت طلب کی ـ اندازہ لگائیے غنڈوں کو پہلی دفعہ طاقت کہاں سے فراہم کی جارہی تھی ـ کافی منت سماجت کے بعد غنڈوں نے بائیں بازوں کے طلبا کو جلسے میں آنے کی اجازت دے دی ـ دادل برادران لاعملی کی وجہ سے مار کھا گئے، وہ بائیں بازوں کے طلبا کی مزاحمتی فطرت اور بے باکی سے آشنا نہ تھےـ ان کی اس فاش غلطی نے ککری گراؤنڈ کی شناخت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دی ـ این ایس ایف کے طلبا نے ایوب خان کے خلاف شدید احتجاج کر کے جلسہ درہم برہم کردیاـ اس احتجاج نے ظلمت پرستوں کو یہ بھی جتا دیا کہ لیاری اور ککری گراؤنڈ ان کی طبعیت کے لیے کبھی بھی سازگار ثابت نہیں ہوسکتےـ

مارشل لا حکام نے ککری گراؤنڈ کو سزا دینے کے لیے زمین کراچی بندرگاہ (کے پی ٹی) کے نام کرنے کا اعلان کردیاـ اس اعلان کے خلاف لینن گراڈ نے لیاری کے عوام کو منظم کر کے زبردست احتجاجی تحریک چلائی ـ عوامی احتجاج کے سامنے کون ٹک پایا ہے؟ فوج کو پسپا ہونا ہی پڑاـ ایوب حکومت نے لیاری کو کچی آبادی قرار دے کر موجودہ نیو کراچی منتقل کرنے کا بھی منصوبہ بنایاـ نیو کراچی کا نام اس وقت “نیو لیاری” رکھا گیاـ فوجی حکام کو پاکستان کے معاشی حب سے متصل مزاحمتی علاقہ کسی صورت قبول نہ تھاـ لیاری کی منتقلی کا منصوبہ گویا عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا ثابت ہواـ اس منصوبے کے خلاف پورا لیاری اٹھ کھڑا ہواـ احتجاجی تحریک کی قیادت کا بار اس دفعہ بھی لینن گراڈ نے ہی اٹھایاـ لینن گراڈ نے ایک قدم آگے بڑھ کر 1963 کو گراؤنڈ میں عوامی نیشنل پارٹی کا جلسہ رکھ دیاـ عطااللہ مینگل اور خیر بخش مری کی شعلہ بیانی نے خودساختہ فیلڈ مارشل کے چھکے چھڑا دیےـ اس جلسے میں مارشل لا حکام کو خوب خوب رگیدا گیاـ

اس جلسے سے واضح ہوگیا لیاری بلوچستان کا کیس بلا مشروط لڑنے کے لیے پرعزم ہےـ سرداروں کی نظریں مگر کسی اور جگہ پر ٹکی ہوئی تھیںـ وہ لیاری کو صرف دباؤ برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرنا چارہے تھے انہیں لیاری کو سیاسی لحاظ سے منظم کرنے میں چنداں دلچسپی نہیں تھی ـ بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کردیاـ قبل ازیں بھی بلوچستان کے سردار پاکستانی حاکموں سے سازباز کر کے بلوچ لیگ کی پیٹھ پر چھرا گھونپ چکے تھے اس دفعہ گوکہ وہ کسی ساز باز کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر انہیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ لینن گراڈ کو اتنی توانائی دی جائے کہ وہ مستقبل میں ان کی سرداریت اور موروثیت کے خلاف خطرہ بن جائےـ لیاری، کراچی کی سیاست کا فعال خطہ تھا وہ نہ صرف کراچی میں بائیں بازوں کی سیاست کا اہم گڑھ تھا بلکہ کراچی کے مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے بلوچوں کا بھی مرکز تھاـ سیاسی و قومی شعور سے آراستہ و پیراستہ لاکھوں شہری بلوچوں کی بلوچ سیاست سے منظم وابستگی سرداریت کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتا تھاـ نیپ سے وابستہ بلوچستان کے رہنما اپنے لائحہِ عمل اور رویے سے واضح تھے مگر لینن گراڈ کے پرجوش نوجوان اسے اس وقت بھانپنے میں مکمل طور پر ناکام رہےـ

زندگی کے آخری دنوں میں لالہ لال بخش رند نے متعدد جگہ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ سرداری نظام اور اس کی حرکیات کو اس زمانے میں سمجھ نہ سکےـ ان کے بقول جب قادر بخش نظامانی جیسے باریک بین سیاسی کارکن پھسل سکتے ہیں تو ہماری کیا اوقات ـ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ـ کہتے ہیں نیپ کے کسی اجلاس میں قادر بخش نظامانی نے عوام کو سیاسی لحاظ سے منظم کر کے انقلابی عوامی پارٹی بنانے کی تجویز پیش کی ـ سردار عطااللہ مینگل نے ان کی طرف ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہوگئے ہیںـ سردار نے فرمایا عوامی پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے، آپ جہاں بھی جلسے کا اعلان کریں اتنے ہزار مینگل میں لے آؤں گا، ہزاروں مریوں کو سردار خیر بخش مری لے آئیں گے باقی دیگر سردار لے آئیں گے تو خوامخواہ عوامی پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ـ نظامانی یہ نرالی منطق سن کر خاموش ہوگئےـ لالہ رند کے برخلاف یوسف نسکندی البتہ آخری سانس تک سرداروں کے سدھرنے کی امید رکھتے رہےـ

سردار عطااللہ مینگل، سردار اختر مینگل، سردار خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور دیگر قوم پرست سرداروں کی راست بازی، جدوجہد اور صعوبتیں برداشت کرنے سے انکار نہیں ہےـ یقیناً انہوں نے کانٹوں بھرے راستے پر چل کر قومی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کو آگے بڑھایا مگر یہ بھی روشن حقیقت ہے انہوں نے اپنی طبقاتی حیثیت پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا ـ بلوچ تحریکوں پر موروثیت کے غلبے کی روشن مثال حیر بیار مری، براہمدغ بگٹی اور اختر مینگل ہیںـ کیا محنت کش طبقے میں ایک بھی ایسا فرد نہیں جسے رہنمائی کا منصب دیا جاتا؟ سردار عطااللہ مینگل اور نواب اکبر خان بگٹی کو ایک طرف رکھ لیں، کیا ماؤ اسٹ خیر بخش مری کے انقلابی قافلے میں صرف مہران مری و حیر بیار مری ہی رہنمائی کے قابل تھے؟

ان سوالات کا جواب نوجوان بلوچوں کو ہی ڈھونڈھنے ہوں گےـ انہیں سوچنا ہوگا کیا وہ اپنا آخری وقت (مسخ لاش نہ بنے تو) لالہ رند کی طرح ویل چیئر پر بیٹھ کر یہ افسوس کرتے گزاریں گے کاش میں جوانی میں ہی طبقاتی سوال کو قومی سوال پر مقدم رکھتاـ سوالات کو فی الحال یہاں چھوڑ کر ایک دفعہ پھر رخ کرتے ہیں ککری گراؤنڈ کی جانب ـ

1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے محنت کشوں کو “روٹی، کپڑا اور مکان” دینے کا وعدہ اسی گراؤنڈ میں کھڑے ہوکر کیاـ کہا جاتا ہے نیپ کے جلسے کے بعد یہ اس گراؤنڈ کا دوسرا سب سے بڑا اجتماع تھاـ بھٹو لیاری کی گلیوں اور سڑکوں پر ریلی کی صورت گھومتے گھومتے ککری گراؤنڈ پہنچے تھےـ ان کی یہ ادا لیاری کو بھا گئی ـ

اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر 1986 کو بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ضیا مارشل لا کو دعوتِ مبارزت دینے آئیں تو سندھ پہنچتے ہی انہوں نے پہلا جلسہ یہیں رکھاـ اسی گراؤنڈ میں کھڑی ہوکر انہوں نے لیاری کو اپنا دوسرا گھر قرار دے کر جنرل ضیا الحق کو للکاراـ کہا جاتا ہے بے نظیر بھٹو کا خطاب سننے عوام کی اتنی بڑی تعداد امنڈ کر آگئی تھی کہ وسیع و عریض گراؤنڈ انہیں سمانے میں ناکام رہاـ سینکڑوں لوگوں نے سڑک پر کھڑے ہوکر ان کا مزاحمتی خطاب سناـ بعد ازاں 1987 کو اسی گراؤنڈ میں وہ آصف علی زرداری کی دلہن بنیں ـ اس شادی میں تقریباً پورا لیاری شریک تھاـ

ککری گراؤنڈ کا تاحال آخری مزاحمتی جلسہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کے نام ہےـ انہوں نے 2008 میں پرویز مشرف کی جیل سے رہائی کے بعد یہاں ایک بڑے احتجاجی جلسے سے خطاب کر کے تحریک چلانے کا اعلان کیاـ اس جلسے میں بی ایس او آزاد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان کی نعرے بازی نے ان کا موڈ بھی کافی حد تک خراب کیا تاہم بعد میں بی این پی کراچی کے رہنما زاہد حسین بلوچ اور شدت پسند قوم پرستوں کے درمیان مذاکرات کے بعد معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیاـ

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply