اٹھارہ برس ایک ائیرپورٹ پر /تحقیق و تحریر : مسلم انصاری

“اپنے پیدائشی سن 1945 سے لیکر 1977 تلک وہ ایک مستقل شہریت کا حامل تھا جبکہ 1988 کے بعد شہریت کے خانے میں اسے stateless لکھا گیا”

آپ سب ہی یقیناً سفر کرتے ہیں
بس اسٹینڈز، لاری اڈوں، اسٹیشنز اور ہوائی اڈوں پر آپ کی زندگی کے اوسطاً 3 یا 5 برس بیتتے ہیں
مگر زیادہ سے زیادہ آپ کسی ہوائی اڈے پر کتنا وقت رکے ہونگے ؟ 5 گھنٹے ؟ دس ؟
چلیں ممکن ہے کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ایک دن بھی رکنا پڑا ہو مگر کیا آپ 18 سال ایک ائر پورٹ پر رکنے کا سوچ سکتے ہیں ؟ یعنی قریب قریب زندگی کی ایک سلور جوبلی آپ ایک ہی ائیرپورٹ پر گزار دیں!

مہران کریمی ناصری (mehran karimi nasseri) نے سن 1988 میں Brussels سے لندن کے لئے براستہ پیرس فلائیٹ لی Charles De Gaulle نامی ائر پورٹ پر اترنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اس کا ایرانی پاسپورٹ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے پناہ گزین ہونے کے دستاویزات اس سے چوری ہوچکے ہیں
دستاویزات کی عدم موجودگی کے باعث اس کے انگلینڈ میں داخلے پر کوئی جواز نہیں بچا جبکہ واپس Brussels یا ایران لوٹنے کے لئے پاسپورٹ کا ہونا ایک حتمی شرط تھی

ایسا نہیں ہے کہ مہران کریمی ناصری کی شخصیت کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ 1973 سے لیکر 1974 تک وہ University of Bradford کے بیج کا حصہ تھا
مگر ایک چوری نے اس کی شناخت، سفر اور زندگی کو روک کر رکھ دیا

سر الفریڈ ائر پورٹ پر اپنے شب و روز کے دوران

سن 1988 میں پیرس کے مذکورہ ائر پورٹ پر اترنے والا مہران کریمی ناصری 2006 تک (مجموعی طور پر 18 برس) دستاویزات کی عدم دستیابی کے باعث ایک رکے ہوئے لمحے جیسا بن چکا تھا
2006 کے اوائل میں اسے ایک ایسے فرد کے طور پر کہ (جس کا کوئی وطن نہیں ہے) یعنی بنا شہریت کے زندہ انسان کے حوالے سے فرانس میں داخلے کی اجازت دے دی گئی
مگر ہم 2006 سے کچھ وقت پہلے کی طرف لوٹتے ہیں

ہالی ووڈ کی مشہور فلم کمپنی ڈریم ورکس کو کسی طرح کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ فرانس پیرس کے ایک ہوائی اڈے پر کوئی سابقہ ایرانی شہریت کا مہران نامی فرد ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھے افراد کو اپنی زندگی کی کہانی سناتا ہے، وہ لابی میں ہی سوتا ہے، ائیرپورٹ پر اسے ہر ایک چیز ایسے ہی ازبر ہے جیسے کسی علاقے میں پیدا ہوکر وہیں ساری زندگی گزار دینے والا فرد اس علاقے کے بارے میں جانتا ہے

ہالی ووڈ نے مہران کی کہانی کو فلمانے کے طور پر ایک فلم کی شروعات کی اور اس کی اصل کہانی سے فلم کا فکشنلی پلاٹ چنا گیا اور فلم بنائی گئی
فلم کا نام تھا The Terminal، ریلیز کا سن تھا 2004، فلم میں مہران جیسا کردار ایک مایہ ناز اداکار Tom Hanks نے وکٹر ناوورسکی کے نام سے نبھایا، ریلیز کے ساتھ ہی فلم بہترین ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئی اور سات ایوارڈز جیتی جن میں انٹرنیشنل گولڈ ریل ایوارڈ بھی شامل تھا جبکہ مزید 8 جگہ یہ فلم نامینیٹ رہی مگر یہ سب 2004 اور 2005 کی بات ہے اس کہانی کا اصل کردار مہران اب بھی ائیرپورٹ پر ہی تھا

سن 2006 میں مہران ناصری کریمی اعلی حکام کی اجازت، سرخیوں میں بنے رہنے اور فلم کی ہائپ اور پسِ منظر کی وجہ سے اب فرانس میں داخلے کی اجازت رکھتا تھا مگر ایک ایسے انسان کے طور پر جس کا کوئی وطن نہیں ہے
اس پر کسی ملک کا قانون لاگو نہیں تھا اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے ملے پناہ گزین ہونے کا کوئی سرٹیفکیٹ بھی اب اس کے پاس موجود نہیں تھا
مہران کریمی ائیرپورٹ پر اپنی پہچان “سر الفریڈ” کے نام سے کرواتا، وہاں کے سبھی لوگ اسے مہران کریمی سے زیادہ “سر الفریڈ” کے طور پر جانتے تھے

اس لمحے کا تصور کریں کہ :
مہران کریمی نے 2006 میں 18 برس کے بعد ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھا اور وہ فرانس میں داخل ہوا مگر یہ سب اس نے ایک بیماری کی وجہ سے کیا
ایک غیر متعینہ بیماری کی وجہ سے وہ ٹرمینل چھوڑ کر سیدھا ہسپتال میں داخل ہوگیا
اپنے علاج کے بعد اس نے اپنی زندگی گزارنے کے لئے ایک ہوٹل کا روم مستقل کرائے پر لے لیا

سوال یہ ہے کہ اس کے پاس بقیہ زندگی گزارنے، ہوٹل کے کرائے اور علاج کی رقم کہاں سے آئی؟

الفریڈ ائر پورٹ پر سامان کی باقیات کے ہمراہ زندگی گزارتے ہوئے

جواب یہ ہے کہ معروف ہالی ووڈ فلم کمپنی ڈریم ورک DreamWorks نے اس کی سوانح عمری کے استعمال کے لئے مبینہ طور پر اسے 250،000 ڈالرز ادا کئے تھے
ابھی تک کہانی ختم نہیں ہوئی ہے آگے بڑھتے ہیں

جہاں تک فلم دی ٹرمینل 2004 کی بات ہے اس کا کردار کتنا عرصہ ائیرپورٹ پر رہتا ہے فلم میں بھی نہیں بتایا جاتا بلکہ مجہول رکھا جاتا ہے مگر فلم ہیپی اینڈنگ کے ساتھ ختم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیپی اینڈنگ زیادہ بکتی ہے مگر 2006 میں باہر آنے والا مہران کچھ ہی برس کے بعد اپنی ذھنی صحت کھونے لگا پھر “سر الفریڈ” نے دعویٰ کیا کہ اب وہ اپنی آبائی فارسی زبان بھول چکے ہیں اور وہ مزید فرانس میں نہیں رہنا چاہتے کیونکہ یہاں ان کی شناخت “سر الفریڈ” کے نام سے کہیں نہیں ہے

مہران ناصری کریمی یعنی سر الفریڈ اکتوبر 2022 میں واپس اسی ائیرپورٹ “چارلس ڈی گال ہوائے اڈے” پر لوٹ گئے
انہوں نے وہیں قیام کیا بحیثیت آزاد و غیر مشروط فرد کے اور ہر ایک کو، جو جو ان کی کہانی سننا چاہتا تھا مہران اسے اپنی کہانی سناتے رہے اور پھر سر الفریڈ 12 نومبر 2022 کو مذکورہ ائیرپورٹ پر ٹرمینل 2F پر دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خدا سے جا ملے

اس کہانی کے اختتام کے بعد یہاں پر یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ کہانی بہت عجیب و حیران کن ہے مگر یہ کہانی دراصل ایک بہت بڑے کرب کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے
ایک ذرہ سی چوری ۔۔۔۔۔۔ جس نے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی ساری زندگی ہمیشہ کے لئے روک دی

اپنی ہی کہانی پر فلمائی گئی فلم کے پوسٹر کے ساتھ الفریڈ کی یادگار تصویر

وہ بس دستاویزات نہیں تھے وہ کسی فرد کی کل کائنات بھی ہوسکتے ہیں
آج بھی جب دورانِ واردات موبائل یا دیگر چیزیں چھینی جاتی ہیں تو لوگ جانتے ہیں موبائل تو نیا لیا جاسکتا ہے مگر اس میں موجود کسی کا چہرہ، آواز عکس بندیاں کل کائنات بھی چھن جاتی ہیں
اب اور کہا بھی کیا جا سکتا ہے
ہاں بس یہ کہ فلم دی ٹرمینل ایک PG-13 فلم ہے اور اس کی ریٹنگ 7.4/10 ہے
پر ہیپی اینڈنگ کے ساتھ اور ہیپی اینڈنگ ہی اچھا بکتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

سر الفریڈ، ریسٹ ان love

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply