دوغلے رویّے/طیبہ ضیاء چیمہ

مذہب کو بطور ہتھکنڈا استعمال کرنا پاکستان میں معمول کی بات بن چکاہے۔ کسی کو پھانسنا ہو، پیسہ بٹورنا ہو، ووٹ لینا ہو یاکسی بھی دنیاوی مقصد کے حصول کیلئے لوگوں کو بے وقوف بنانا ہو تو انہیں مذہبی حوالے سے ایکسپلائٹ کرنا الٹے ہاتھ کی گیم بن چکی ہے۔ ضعیف الاعتقاد طبقہ کو مذہبی حوالے سے بلیک میل کرکے با آسانی پھنسایا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک معمولی مثال سوشل میڈیا پر مذہبی پوسٹیں ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کو شئیر کرنے سے مرادیں پوری ہوں گی ورنہ گناہ گار ہوگا یا مشکلات پیش آسکتی ہیں، لوگ خوفزدہ ہو کر اس پوسٹ کو شئیر کرتے جاتے ہیں جبکہ اس کی نہ کوئی سند ہے نہ حقیقت نہ یہ دین ہے۔ اس معمولی مثال سے سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ چالاک ہوشیار عیار لوگ ضعیف الاعتقاد لوگوں کے کچے ایمان سے کس طرح کھلواڑ کرتے ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان کے ہر شعبے اور طبقے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر معرض میں آیا شاید یہی وجہ ہے کہ اس مملکت خدا داد میں عوام مذہب کے نام پر با آسانی بے وقوف بن جاتے ہیں۔ سیاست سے مذہبی تبلیغ تک الا ما شا اللہ مفاد پرست طبقات مذہب کی آڑ میں خوب اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ ایک شخص نے شادی کر لی، اس کی بیوی نے کہا کہ میں عالمہ ہوں اس وجہ سے ہم شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ وہ شخص بہت خوش ہوا کہ اس کی زندگی میں آسانیاں ہونے جا رہی ہیں۔ کچھ دنوں بعد بیوی نے کہا، بہو پر ساس سسر کی خدمت واجب نہیں اور شریعت کے مطابق شوہر کو بیوی کے لیئے علیحدہ گھر کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ وہ شخص پریشان ہوگیا کہ علیحدہ گھر کس طرح لے دے۔ بوڑھے والدین کو اکیلے کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس شخص نے مفتی صاحب سے مدد طلب کی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ تمہاری بیوی کا مطالبہ بظاہر شرعی ہے لیکن شریعت میں ظلم، بے رحمی، بے حسی، احسان فراموشی، کی گنجائش نہیں لیکن یہ باتیں تمہاری بیوی قبول نہیں کرے گی کیوں کہ اس کی نیت میں فتور ہے۔ وہ شریعت کی آڑ میں الگ گھر اور والدین کی خدمت سے جان چھڑانا چاہتی ہے لہذا تمہیں بھی شرعی ٹوٹکا استعمال کرنا ہوگا۔ گھر جاؤ اور بیوی سے کہو کہ شریعت میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت ہے لہذا میں دوسری شادی کرنے جا رہا ہوں ایک ایسی خاتون سے جو میرے والدین کے ساتھ رہے اور والدین کی دیکھ بھال میں میری مدد کرے۔ بیوی کو یہ سننا تھا کہ سٹپٹا گئی اورفوراً بولیدفع کرو الگ گھر کو، میں ادھر ہی تمہارے والدین کیساتھ رہوں گی، ان کی خدمت کروں گی کیوں کہ والدین کیساتھ حسن سلوک سے پیش آنا بھی اللہ کا حکم ہے۔۔! دور حاضر میں تبلیغ کا سلسلہ جس قدر آسان ہو تا جا رہاہے، مذہب پر عمل اسی قدر مشکل ہوتا جا رہاہے۔ تبلیغ دین بظاہر نیک عمل ہے لیکن اس کی آڑ میں مسلم معاشروں کو کنفیوز اور گمراہ کیا جا رہاہے۔ پوری دنیا میں مسلم مبلغین ایسے ایسے وعظ فرما رہے ہیں کہ نہ ان کا انسان کی نفسیات سے تعلق ہے اور نہ دین کی معرفت اور حقیقی مفہو م کو دخل رہاہے۔ دینی کورس یا ڈپلومہ لینے والی خواتین نے گھر گھر تبلیغی مراکز کھول رکھے ہیں۔ رٹے رٹائے سبق یاد کرکے آگے پہنچانے کو ثواب دارین سمجھا جا تاہے۔ لبرل طبقہ مادر پدر آزادی کی لڑائی لڑ رہاہے اور نام نہاد مذہبی گھرانوں کی خواتین شریعت میں راستے تلاش کررہی ہیں۔ ساس سسر سے آزادی، باورچی خانے سے آزادی، شوہر کے کاموں سے آزادی خرچ کرنے کی آزادی جاب کی آزادی، گھر سے فرار کی آزادی۔ انسان بنیادی طور پر آزادی کا خواہشمند ہے لیکن آزادی کیلئے مذہب کی ا?ڑ تلاش کرکے خواہش نفس کی تکمیل ٹھیک نہیں۔ بہو یا بیوی کی تلاش ہو تو پہلی بات ہی یہ کہی جاتی ہے کہ “نیک سیرت ” بہو چاہیئے۔ لیکن نیک سیرت کی تشریح اس وقت معلوم ہوتی ہے جب لڑکی کا رشتہ دیکھنے ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ لڑکے کی ماں بہنوں نے حجاب اور چادریں لے رکھی ہیں۔ لڑکے کی بھی داڑھی ہے۔ باپ بھی ٹوپی پہنے باریش دیندار دکھائی دیتا ہے۔ اب نیک سیرت کا “ایکسرے، ہونے جا رہاہے۔ گورا رنگ، لمبا قد، پتلا بدن، باریک نقوش، اعلیٰ ڈگری، نام والا باپ، ہم ذات ہم برادری، چھوٹاخاندان، اچھے علاقے میں اچھا گھر وغیرہ۔ اگر تمام شرائط مکمل ہیں تو سمجھولڑکی “نیک سیرت “ہے ورنہ “استخارہ” حق میں نہیں۔ داماد کی تلاش میں بھی “خاندانی، نیک ” شرط ہے۔ لڑکا پانچ وقت کا نمازی ہے، مسجد بھی جاتا ہے، نجی ادارے میں ملازم ہے، نیک شریف خاندانی ہے۔ وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن سرکاری ملازمت ہوتی تو اچھا تھا، لڑکے کی بہنیں ابھی بیاہنے والی ہیں، والد کوئی خاص عہدے پر نہیں۔ گھر بھی تین کمروں کا ہے وغیرہ۔ یہ ہیں” نیک شریف داماد” سے نتھی شرائط۔ مذہب کو بطور “نظریہ ضرورت” استعمال کرنے والے رشوت بھی سلیقے سے لیتے ہیں اور جھوٹ بھی “حکمت”سے بولتے ہیں۔ تبلیغ جتنی پھیل رہی ہے برائی بھی اسی حساب سے پھیل رہی ہے کیوں کہ سیاستدان ہی نہیں وعظ کرنیوالے بھی مذہب کو بطور “نظریہ ضرورت” استعمال کر رہے ہیں۔ انکے بیان بے اثر ہیں۔ ساس سسر کی بے عزتی، بزرگوں سے چرب زبانی، مہمانوں کیساتھ بد سلوکی، شوہر کی کمائی کا بلا اجازت استعمال، ملازموں کیساتھ ناروا سلوک، شوہر کے خاندان اور اپنے خاندان کیساتھ رویہ میں تضاد، اولاد کی تربیت میں ڈنڈی، غرض روز مرہ کی زندگی میں سینکڑوں غیر اسلامی و غیر شرعی حرکتیں اور باتیں ایسی کرتی ہے جس میں مذہب کا قطعاً عمل دخل نہیں۔ نام نہاد مسلمان مردو خواتین نے جہاں اپنی مرضی کی بات منوانی ہو وہاں شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔ حقیقی اسلام نام ہے رواداری، محبت، بھائی چارہ، درد مندی، در گزر، احساس، خدمت، احسان، مروت، پردہ پوشی، ایثار، قربانی کا۔ الغرض ہر بھلی سوچ اور اچھا عمل مذہب اسلام ہے۔ لیکن الا ما شا اللہ یہ مذہبی باوے جو تبلیغ کو ثواب سمجھ رہے ہیں ان کی ماشا اللہ اپنی عملی زندگیاں اور بندوں سے معاملات زندگی میں نفاق انہیں دکھائی نہیں دیتا بلکہ دوغلے رویوں کو معمولات زندگی بنا چکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply