علامہ صاحب کی یادیں(حصّہ اوّل)۔۔۔صفی سرحدی

جب سے علامہ صاحب جدا ہوئے ہیں، میں روز یہ سوچتا ہوں کہ ان سے جڑی یادوں کو تحریر کی شکل میں محفوظ کرلوں مگر جب بھی ان پر کچھ لکھنے کی کوشش کی تو گویا جیسے لفظوں نے ہڑتال کردی ہو، کہ اس عظیم شخص کا حق کیا میں ادا کرپاؤں گا؟

اس سے پہلے کہ مزید دیر ہوجائے مجھے اب ان کے بارے میں جیسے تیسے لکھ دینا چاہیے۔ علامہ صاحب سے میرا تعلق قریباً  چھ سال رہا۔ 2014 کی بات ہے ۔ان دنوں میں اپنے محبوب اداکار دلیپ کمار سے ممبئی مل کر آیا تھا۔ یوں تو میں دلیپ کمار کے حوالے سے  کئی کتابیں پڑھ چکا تھا۔ ایک دن محترم دوست عقیل عباس جعفری صاحب نے علامہ صاحب کی کتاب “دلیپ کمار” کی تصویر فیس بک  پر شیئر کی۔ مجھے تب خوشی کیساتھ حیرانی بھی ہوئی کہ یہ کتاب کیسے میں نے اب تک نہیں پڑھی ہے۔

دراصل یہ کتاب ان دِنوں ہندی فلم انڈسٹری کے سو سال پورے ہونے کے بعد علامہ صاحب منظر عام پر لے آئے تھے۔ میں نے فوری علامہ صاحب کو فیس بک پر سرچ کیا اور ان سے کتاب کیسے کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے، کے بارے میں انباکس پوچھ لیا۔ اس دوران میں نے عقیل عباس جعفری صاحب سے علامہ صاحب کا نمبر لیا اور انہیں کال بھی لگا دی۔ کال اٹینڈ ہونے کی دیر تھی۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی، جب علامہ صاحب میرا نام سن کر بتانے لگے کہ بھئی میں ابھی  آپ کی  آئی ڈی پر  آپ کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ آپ تو چھا گئے ہیں، دلیپ کمار صاحب سے مل کر آئے ہیں۔ یہ ہماری دوستی کا آغاز تھا۔ علامہ صاحب نے مجھ سے ایڈریس لیا اور اگلے دن کتاب میرے پاس پہنچ گئی۔

میں اس کتاب کو پا کر بہت خوش تھا۔ یہ ایک شاہکار کتاب ہے۔ میں نے دلیپ کمار پر جتنی بھی کتابیں پڑھی ہیں، ان میں علامہ صاحب کی اس کتاب کو زیادہ شاندار اور معیاری پایا ہے۔ یہ کوئی دو کلو وزنی موٹی بھاری کتاب ہے۔ یہ کتاب اوروں سے منفرد اس لیے بھی ہے کہ دلیپ کمار پر باقی کتابیں بہت بعد میں لکھی گئیں۔ ہاں یہ کتاب 2014 میں شائع ضرور ہوئی مگر علامہ صاحب نے اس کتاب کا مسودہ صرف انیس سال کی عمر میں 1964 میں ہی تیار کرلیا تھا۔ پاکستان آنے سے پہلے علامہ صاحب لکھنو میں رہتے تھے، کم عمری سے انہیں ادب اور فلموں سے خاص لگاؤ تھا۔ لکھنو میں فلموں کی شوٹنگ کے دوران علامہ صاحب بڑے اداکاروں کو دیکھ چکے تھے۔ یہیں سے لڑکپن میں ہی ان کے من میں فلمی دنیا کی طرف جھکاؤ بڑھنے لگا۔

علامہ صاحب نے اس عمر میں کچھ فلمی کہانیاں بھی لکھی تھیں ،اور ساتھ ہی اس وقت کے بڑے اداکار دلیپ کمار پر کتاب بھی لکھ ڈالی۔ اور ایک دن موسیقار نوشاد کے ایک عزیز کی سفارش لے کر ممبئی پہنچے۔ جب پالی ہل باندرہ، دلیپ کمار کے گھر پہنچے تو انہوں نے لکھنو جیسے تہذیبی شہر سے آنے کی وجہ سے انہیں ملاقات کیلئے گھر   بلا لیا۔ علامہ صاحب کے پاس کتاب کی ایک ہی کاپی تھی اس وقت فوٹو اسٹیٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی علامہ صاحب نے انہیں کتاب کا مسودہ پیش کیا۔ دلیپ کمار تو دنگ رہ گئے، خوش تو بہت ہوئے ،پر ان سے یہ کہہ کر کتاب نہیں لے سکے کہ اگر آپ سے یہ کتاب لوں گا تو پھر آپ کے پاس نہیں رہے گی۔ علامہ صاحب نے انہیں اپنی کہانی پیش کی کہ آپ اگلی فلم میری کہانی پر بنائیں۔ دلیپ کمار نے علامہ صاحب کی قابلیت کو پرکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ کہانی تو میں پڑھ لوں گا مگر آپ ابھی تعلیم پر دھیان دیں ،فلمی دنیا اتنی اچھی جگہ نہیں ہے، آپ فی الحال ان چکروں میں نہ پڑیں۔

میرے خیال سے علامہ صاحب کو ڈائریکشن دینے والے دلیپ کمار ہی تھے ،اگر وہ انہیں اس دن نصیحت کرکے واپس نہ بھیجتے ، تو علامہ صاحب فلمی دنیا میں کہیں کھو جاتے اور یوں ہم ایک علمی و ادبی شخصیت جو کہ تین سو سے زائد کتابوں کے مصنف بنے، اُن سے محروم رہ جاتے۔ 1967 میں علامہ صاحب پاکستان منتقل ہوئے اور کراچی کو اپنا دوسرا گھر بنا لیا۔ کراچی میں انہیں عزت شہرت پیسہ سب کچھ ملا۔ علامہ صاحب جہاں دنیا بھر گھومتے رہے وہیں اپنے پہلے گھر لکھنو سے بھی جڑے رہے وہ کئی بار لکھنو بھی گئے۔

علامہ صاحب سے جب سلام دعا بنی، ان دنوں ان کا اصرار رہا کہ آپ خوش شکل ہیں ،اس لیے آپ فلموں کی طرف ضرور جائیں۔ انہوں نے امراؤ جان کے ڈائریکٹر اور اپنے فلمساز دوست مظفر علی سے انکی اگلی فلم میں میرے لیے بات کرنے کا کہا، پر میں نے انہیں منع کردیا کہ ایک تو میں کیمرہ فیس کرنے سے گھبراتا ہوں دوسری بات خود بھی ایسی کوئی خواہش نہیں ہے۔ ہاں البتہ مستقبل میں کیمرے کے پیچھے رہ کر ضرور کام کروں گا۔ علامہ صاحب سے ملاقات کی خواہش تو بہت رہی ،پر کراچی جانے کا کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا۔ وہ اکثر کراچی چکر لگانے کا کہتے رہتے، پر زیادہ دوری کی وجہ سے میں کبھی من نہیں بنا سکا۔ ایک بار وہ لاہور آئے ان دنوں میں نے کافی کوشش کی مگر دفتر سے چھٹی نہیں مل سکی۔

بالآخر نومبر 2018 میں زندگی میں پہلی بار کراچی جانے کا بہانہ مل گیا۔ میں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کرنے کیلئے کراچی پہنچا۔ تین دن کانفرنس میں شدید مصروف رہا۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد اگلے دو دن دوستوں سے ملنے کیلئے کراچی رُکا رہا۔ آخری دو دنوں میں ایک دن تو کافی مصروف گزرا۔ جبکہ آخری دن کے اختتام پر شام کو واپسی بھی کرنی تھی۔ سو رات ہی من بنا لیا کہ کیوں نہ اسی وقت علامہ صاحب کی طرف چلا جاؤں۔ بہرحال انہیں کال لگائی تو ان کے ملازم فون اٹینڈ کرکے بولے علامہ صاحب ایک شادی پر گئے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کب تک واپس آجائیں گے۔ اس نے بتایا کہ دو تین بجے تک واپس آجائیں گے۔ ایک تو دن بھر کی تھکاوٹ بہت تھی سوچا اب آرام کرلینا چاہیئے، کل کا دن علامہ صاحب کے نام کردوں گا ،بھلے ایک آدھ دوست سے ملنے سے محروم رہ جاؤں۔ خیر بستر پر دراز ہوا پر نیند ہی نہ آئے۔ کروٹیں بدلتا رہا، کافی کوشش کے باوجود جب نیند نہیں آئی تو میوزک پلے کردیا۔ جیسے تیسے وقت کاٹتا رہا۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کے تین بجنے والے تھے۔ تب تک من کو اجنبی شہر کا احساس بھی کافی حد تک ڈس چکا تھا۔

اکتاہٹ میں، میں نے علامہ صاحب کو کال لگائی اکثر وہ دیر تک جاگتے رہتے تھے اور تب یہ خیال بھی تھا کہ وہ ابھی شادی سے لوٹ کر آچکے ہوں گے۔ پر تب تک علامہ صاحب آکر سو بھی چکے تھے۔ لینڈ لائن پر فون کی گھنٹی سے ان کی آنکھ کھلی۔ ناگواری سے علامہ صاحب بولے۔ بھئی کون بول رہے ہو یہ رات تین بجے کال کرنے کا وقت ہے کیا؟ میں نے شرمندگی محسوس کی ۔۔پر فوری ان کی خفت دور کرنے کیلئے کہا۔ علامہ صاحب صفی سرحدی بات کررہا ہوں، کراچی آیا ہوا ہوں کل شام واپسی بھی ہے۔ بس آپ کا دیدار کرنا باقی رہ گیا ہے۔ میرا نام سنتے بولے اررررے میاں تم ہو یار، آجاؤ، کل دوپہر ملتے ہیں۔ میں نے انکی نیند خراب کرنے پر معذرت کی ،کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ شادی سے دیر سے آئیں گے تو وہ بولے ارے یار کوئی بات نہیں۔ بس وہ میری طبیعت کچھ ناساز تھی اس لیے میں شادی سے جلدی چلا آیا۔ کل دوپہر ملاقات کا وقت طے پایا لیکن میں دوپہر سے بھی پہلے قریب گیارہ بجے ملاقات کرنے پہنچا۔

علامہ صاحب کو اٹھایا گیا، وہ  آنکھیں ملتے ہوئے وارد ہوئے۔ بہت پیار سے گلے ملے اور ساتھ ہی ناراض دکھائی دیے کہ اتنے دنوں سے آئے ہو بتایا بھی نہیں اور ہوٹل میں رکے ہو، پہلے بتاتے تو میں آپ کیلئے یہاں رکنے کا بندوبست کرتا۔ کچھ دیر میں ناشتہ  آگیا، ہم دونوں نے مل کر ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد علامہ صاحب نے پان پیش کیا۔ میں نے معذرت کی کہ اب میں صرف چائے لوں گا۔

علامہ صاحب نے پان منہ میں رکھ لیا۔ اور میں نے چائے کا کپ اٹھا لیا۔ پھر بڑی دیر تک ہم دونو ں ادب اور فلم پر گفتگو کرتے رہے۔ علامہ صاحب اپنی فلمی دنیا کے دوستوں کے بارے میں بھی بتاتے رہے۔ علامہ صاحب کا فلمی دنیا سے لگاؤ کا بہت کم لوگوں کو علم رہا۔ 2014 میں علامہ صاحب کی کتاب “دلیپ کمار” جب منظر عام پر آئی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوا۔ یہ ہنگامہ مذاق اڑانے والوں کی طرف سے نہیں تھا۔ مذاق اڑانے والے تو بعد میں پیدا ہوگئے۔

تب علامہ صاحب سوشل میڈیا پر اپنے بیانات کے حوالے سے مشہور نہیں ہوئے تھے۔ علامہ صاحب نے مذہبی سکالر ہونے کے ناطے فلمی دنیا کے حوالے سے لکھا ہوا اپنا کام بند الماریوں سے کبھی نہیں نکالا۔ لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ انہیں اس بات کا احساس ہونے لگا کہ زندگی اور موت کا کچھ معلوم نہیں اس لیے اپنے قلم سے نکلے لفظوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ یہی سوچ کر علامہ صاحب 1964 میں لکھی اپنی کتاب “دلیپ کمار” کو پچاس برس بعد 2014 میں شائع کرکے منظر عام پر لے آئے۔ یہ تو ابھی شروعات تھی علامہ صاحب فلمی دنیا پر مزید کچھ کتابیں بھی منظر عام پر لانے والے تھے۔ مگر ان دنوں ایک ہنگامہ ہوا۔ علامہ صاحب کے خلاف مخالف شیعہ فرقوں نے ایک طوفان کھڑا کیا۔

ان دنوں میں نے علامہ صاحب کی کتاب کی تصویر فیس پر ان کے شکریے کے ساتھ لگائی تو علامہ صاحب کا فوراً  مجھے پیغام آیا کہ آپ کتاب کی تصویر فیس بک سے ڈیلیٹ کردیں۔ جب ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے پوری بات سمجھائی کہ یہ جاہل لوگ میرے پیچھے پڑگئے کہ یہ تو مذہبی عالم ہے اور فلمی اداکار دلیپ کمار پر کتاب لکھ کر سامنے لے آئے۔ یہ بات ان جاہلوں سے ہضم نہیں ہورہی ،اس لیے میری کردار کشی پر اُتر آئے ہیں۔ حالانکہ یہ کتاب میں نے پچاس سال پہلے لکھی تھی جب میں کوئی مذہبی سکالر بھی نہیں تھا۔ بہرحال تب علامہ صاحب نے مارکیٹ سے یہ کتاب واپس اٹھالی۔ اور جن دوستوں کو دی تھی انہیں بھی کتاب کی تصویر نیٹ پر لگانے سے منع کردیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ واحد پہلا موقع تھا جب علامہ صاحب مخالفیں سے گھبرا گئے تھے ،حالانکہ ان مخالفین میں اکثریتی شیعہ ہی تھے۔ اس دوران علامہ صاحب نے ایک بہت ہی غلط فیصلہ کیا ،انہوں نے اپنی کتاب کو دوبارہ مارکیٹ میں لانچ کردیا مگر اس بار کتاب پر ان کا نام نہیں موجود تھا، بلکہ انہوں نے سُمن کمار کے فرضی نام سے کتاب مارکیٹ بھیج دی ،تاکہ یہ معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوسکے۔ حالانکہ میں نے ان کے اس فیصلے کے سخت خلاف تھا ۔میں نے علامہ صاحب سے احتجاج بھی کیا مگر انہوں نے اپنی مجبوری بتلا کر مجھے خاموش کردیا۔ اتنے میں مخالفیں نے پہلی والی کتاب سے ویڈیو اور تصویریں بنا لی تھیں۔ جس میں وہ مصنف کے طور پر علامہ ضمیر اختر نام پیش کرکے انہیں گالیاں نکال رہے تھے۔ علامہ صاحب ان دنوں سخت ڈپریشن سے گزرے ،جیسے کہ انہوں نے کوئی فحش کتاب لکھ ڈالی ہو جو یہ فن دشمن لوگ ان کے پیچھے پڑگئے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply