ایڈورڈسعیداورفلسطینی شناخت /ناصر عباس نیّر

سعید کے لیے بحران ،محض اس کی فلسطینی عرب کی شناخت پر مغربی طاقتوں کی اجارہ داری نہیں تھا،اس سے بڑھ کر تھا۔

اس کے بحران کا کچھ قصہ تقدیر نے بھی لکھا۔سعید نے اپنی آپ بیتی کا عنوانOut of Place رکھا ہے۔یہ عنوان اس کے بحران کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔ آ پ بیتی ، ایک قسم کا سفرنامہ ہے؛خود اپنے ماضی ،وراثت، اپنی ذات، اپنے زمانے کے اوبڑ کھابڑ راستوں پر کیے گئے سفر کا احوال ہے۔ سعید کو یہ پورا سفر’آؤٹ آف پلیس ‘ محسوس ہوا۔

اسے لگا کہ وہ اپنے مقام، اپنی جگہ ، اپنے گھر، اپنے وطن سے ’باہر‘ رہا ہے۔دنیا میں اس کی موجودگی، ایک بڑے تناقض کا شکار رہی۔ وہ دنیا میں ، اپنی جگہ ،اپنے گھر کے حقیقی احساس کے بغیر موجود رہا۔ اس کے والد ودیع ابراہیم فلسطینی تھے، جب کہ والدہ ہلدیٰ لبنانی تھیں۔ وہ اپنے والدین اور آگے آباؤ اجداد کے یہاں بھی ایک قسم کی خانہ بدوشی دریافت کرتا ہے۔ وہ اپنی اکثر الجھنوں کا سبب اپنی والدہ کے یہاں تلاش کرتاہے۔ پہلی بڑی الجھن ، اس کے نام کے ساتھ ایڈورڈ کا اضافہ ہے ،جس کی ذمہ دار اس کی والدہ تھیں۔ سعید لکھتا ہے کہ جس سال اس کی پیدائش (۱۹۳۵ء ) ہوئی ،ان دنوں پرنس آف ویلز ایڈورڈ ہشتم کی وجاہت کا شہرہ تھا۔ (بعد میں اس کی شہرت ، محبت کی خاطر تاج وتخت ٹھکرادینے کے سبب ہوئی)،ان کی والدہ نے اس شہزادے کے حسن وجمال کی تحسین چاہی ،اور اپنے بیٹے کو اس کا نام دے دیا۔

سعید اپنے بحران کی ایک جڑ، اپنی والدہ کے اس فیصلے میں دیکھتا ہے۔ اسے اپنی عرب شناخت پر انگریزی شناخت کا پیوند قبول کرنے میں پچاس بر س لگے۔ وہ ودیع سعید ہی رہنا چاہتا تھا،اپنی دیرینہ عرب شناخت کے ساتھ۔ اسی طرح اس کی والدہ اس سے عربی سےزیادہ انگریزی میں بات کرتیں۔ سعید کو بائبل سے لے کر انگریزی ادب اور یونانی اساطیر سناتیں ،اور کبھی کبھی الف لیلہ ولیلہ۔

یوں والدہ ہی نے اسے دہری شناخت دی۔ بعد میں اس کی تعلیم بھی انگریزی سکولوں میں ہوئی،اور انگریزی ادبیات ہی میں اس نے اختصاص حاصل کیا۔ یہ دہری شناخت، سعید کے لیے مسئلہ نہ بنتی،اگر انگریزی اس استعمار سے وابستہ نہ ہوتی، ا س کا آلہ کار نہ ہوتی ، جسے سعید نے مصر میں دیکھا اور ۱۹۴۷ء میں، جب وہ ابھی بارہ برس کا تھا، فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام میں معاون کے طور پر دیکھا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد ،سعید کا خاندان امریکا منتقل ہوگیا ۔ اس کے والد کے پاس دوسری عالمی جنگ میں شرکت کے باعث امریکی شہریت تھی۔

سعید ، شہریت کو اپنی شناخت کا ایک جز ضرور خیا ل کرتا تھا مگر یہ جز قانونی تھا، ثقافتی نہیں تھا۔ اس نے بارہاتجربہ کیا کہ امریکا نے اسے شہریت دی ہےمگر اس کی شناخت کو مسلسل شبہات کی زد میں رکھا ہے ۔ وہ ’’شرق شناسی ‘‘ میں لکھتا ہے کہ’’یہاں(امریکا میں) یہ اتقاق پایا جاتا ہے کہ سیاسی طور پر عرب فلسطینی کہیں وجود نہیں رکھتا۔ اجازت دی جاتی ہے تو وہ وجود رکھتا ہے۔‘‘ یہ اجازت، اسے شہریت دینے کی حد تک ہے۔ مگر کیا وہ شہریت حاصل کرکے عرب فلسطینی ، امریکا میں واقعی وجود بھی رکھتا تھا ؟ سعید کا جواب نفی میں ہے ۔

یہیں اسے شہری شناخت اور ثقافتی شناخت کے بیچ گہرے خلا کا احساس ہوتا ہے۔ شہریت کسی جگہ قیام کا قانونی جواز دیتی ہے اور بعض آئینی تحفظات بھی ، مگر یہ ثقافتی شناخت کا متبادل نہیں بنتی ۔سعید کا والد اپنے امریکی شہری ہونے پر قانع تھا یا کم از کم اس کا اظہار کیا کرتا تھا مگر سعید اپنی عرب فلسطینی شناخت کے لیے بے حد حساس تھا۔حالاں کہ سعیدکی عمر کا کم حصہ فلسطین میں گزرا۔اس کے بچپن کی کچھ یادیں یروشلم کے علاقے طلبیہ میں اپنے گھر کی ضرور ہیں، مگر وہ خاصی مبہم ہیں، اور فلسطین کے مسئلے پر بعد میں مسلسل لکھنے کے لیے بہ ظاہر ناکافی بھی ہیں۔ اس کا بچپن مصر اور یروشلم کے درمیان مسلسل سفر میں گزرا تھا۔ تاہم اسے یروشلم کو چھوڑنے ، اپنی زمین کے چھن جانے ،اقلیت میں بدل جانے کا صدمہ تھا ، جسے وہ عمر بھر محسوس کرتا رہا ،اور اس نے تاریخ کو کٹہرے میں کھڑا کیا، جس نے یہ صدمہ تمام عرب فلسطینیوں کو پہنچایا تھا ۔ جس امریکا میں وہ عرب فلسطینی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھاک، سعید نے اپنی تحریروں سے ، اپنے موجود ہونے کو یقینی بنایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی شہریت کے باوجود سعید کو اپنے جلاوطن ہونے کا احساس رہا۔اس کے لیے دہری شناخت ایک عجب پیراڈکس کی حامل تھی۔ یہ اسے دنیا کو دیکھنے کا دہرا تناظر تو مہیا کرتی تھی،ساتھ اسے اپنے اندر ایک تقسیم (split) کا احساس بھی دلاتی تھی۔سعید کے لیے لکھنا ، اس تقسیم کو سمجھنا اور اس تقسم کی ذمہ دار تاریخی قوتوں کو معرض ِ سوال میں لانا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply