گزشتہ اقساط کا لنک
عبدالمطلب کے دس بیٹے ہوئے،آنکھیں روشن تو دل شاد تھا۔دعائیں تھیں بس کہ اُمیدِ نظر، یہ میرے سکونِ قلب پھلیں پھولیں ۔تبھی یاد خلیل میں دارالندوہ کے سامنے کھلتے کعبہ کے دروازے پر کھڑے منت مانگ لی!
اے آسمان والے اگر یہ نہال نورس پروان چڑھیں ،تو اپنے باغ کا ایک شگفتہ پھول تیری نذر کروں گا!
وقت گزرتا رہا بیٹے پھلتے پھولتے رہے۔۔اور ایک صبح عبدالمطلب دس بیٹوں کو لیے کعبہ پہنچے،کون تھا جو روکتا سردار کو۔۔بیٹیوں کے آنسو اپنی جگہ، بہنوں کے بین دل کی نرمی تک نہ پہنچے ۔
پجاری سے کہا قرعہ نکالو!
قرعہ ڈالا گیا نام عبداللہ کا آیا۔
خلیل اللہ کا لہو رَگوں میں دوڑ رہا ہے اور دوسری طرف اسماعیل سے آدابِ فرزندی ہیں ۔نہ عبدالمطلب گھبرائے اور نہ عبداللہ خائف ہوئے!
ایسے میں بزرگان قریش آگے بڑھے
برادری نے سوچا آج اگر عبدالمطلب نے نذر پوری کی تو کل ناک رکھنے کے لیے ہمیں بھی ایسا کرنا ہو گا۔ اور اِک وقت ہوگا کہ یہ رسم لازم ہوگی!
بھاگے ،روکا ،سردار عبدالمطلب کو بٹھایا، سمجھایا۔ ۔
مگر سردار کو تو وعدہ نبھانا ہے۔۔
دارالندوہ میں بیٹھے اس مسئلے کا حل اک کاہن کے سپرد کیا۔
کاہن نے کہا
قرعہ ڈالتے جاؤ اور دس دس اونٹ بڑھاتے جاؤ۔ قرعہ ڈلتا رہا، نام عبداللہ کا آتا گیا اور آخر 100 اونٹ پر قرعہ اونٹوں کے نام رہا ۔
100 اونٹ ذبح کیے گئے چرند پرند کھاتے رہے لات منات کے ماننے اور تعظیم کرنے والے کھاتے کھلاتے رہے ۔
اب۔۔۔
مہنگی جنس یوں سستے ہاتھ آئی تو عبدالمطلب کو عبداللہ کی شادی کا خیال ہوا!
کون نہیں جانتا عبداللہ کو ، 100 اونٹ جس پہ قربان ہو جائیں اس پہ نجانے کتنے دل فریفتہ ہوں۔
دھڑکتے مچلتے دل اپنی جگہ مگر دور حرم سے دور ۔ ۔۔یثرب میں آباد بنو زہرہ قبیلے کی باحیا باوقار عورت آمنہ بنت وہب کا انتخاب ہوا!
عبداللہ اور آمنہ آمنے سامنے ہیں ایک آفتاب تو دوسرا مہتاب ۔17 سالہ عبداللہ کی پیشانی جیسے جلتا چراغ اور روشن، آمنہ کی آنکھیں حیا کے گہنے ۔رسم کے مطابق عبداللہ 3 دن سسرال رہے اور پھر مکہ چلے آئے۔۔
خدا کو کچھ اور منظور تھا
قضا بہانے بنانے لگی چند دنوں کا دولہا کسبِ معاش کے لیے باحیاء عورت کو جلد لوٹ آنے کا کہتے ہوئے سفر شام کے لیے روانہ ہوا ۔دعا اور دو آنکھیں جاتے ہوئے عبداللہ کے ساتھ جانے کہاں تک گئی ہوں، مگر مدینہ سے آتی خبر نے باوقار عورت کو تنہا کر دیا ۔
عبدالمطلب اپنے پھٹتے جگر کو تھامتے۔۔ یا منتظر آمنہ کو سہارا دیتے
آنکھ اشک بار تو دل رو رہا ہے
آہ!
جانے والا سامنے بھی تو نہیں
نہ آنے کا سبب کس سے پوچھنا۔
وہ تو مکہ سے گیا اور یثرب کی خاک اوڑھ کے سو رہا!
زندگی رواں دواں ہے مکہ کی رونقیں آباد ہیں
عقیدتوں والے بڑھتے آ رہے ہیں، یقین کا یہ مرکز دور یمن میں بیٹھے ابرہہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ پریشان بیٹھا اٹھ کر چلنے لگتا ،سوچتا۔ آخر کیوں عقیدت وہیں طواف کرتی اور یقین وہیں سر بسجود ہوتا ہے؟
بتانے والے نے بتایا وہ جو کعبہ ہے وہی سبب ہے عقیدتوں اور امیدوں کا!
حکم ہوا یمن میں ایسا معبد تعمیر کرو
ہزار کوشش سے بھی جب یہ معبد خانہ ء خدا کو بدل ثابت نہ ہوا ،تو طاقت اور حکومت کے نشے سے سرشار خانہ ء خدا کو ہی مٹانے کو چل پڑا!
لشکر سالار اور بے خود ہاتھیوں کے ساتھ بڑھتا مکہ کے اطراف کالی گھٹا کی طرح چھا گیا۔ کسی کی نہ سننے اور کسی سے نہ دبنے والے حریت پسند قریش کی اتنی تعداد نہ تھی کہ ابرہہ کا مقابلہ کرتے۔
کلیجے حلق میں اٹک گئے خانہ ء خدا کو چھوتے ہوئے بستی سے باہر نکل گئے ۔
دوسری طرف بدمست ہاتھیوں کے سائے میں بڑھتے ابرہہ کے لشکر نے ہاتھ آتی ہر اس چیز پہ قبضہ جمایا جو سامنے آئی ۔
انھی میں عبدالمطلب کے 100 اونٹ بھی تھے۔
خبر ہوتے ہی عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے شکل میں وجاہت تو تھی ابرہہ نے دیکھتے عزت سے بٹھایا،اور پوچھا قریش کے ایلچی ہو ،کوئی التجا لے کے آئے ہو کہو۔۔
بولتے ہی عبدالمطلب بولے نہیں اپنے 100اونٹ لینے آیا ہوں وہ میرے ہیں واپس کر دو۔۔۔
ابرہہ متعجب نظروں سے دیکھتے بولا
عبدالمطلب میں کعبہ پہ ہل چلانے آیا ہوں اور تم کو اونٹوں کی فکر ہے؟
کہا !ہاں ابرہہ
میں اونٹوں کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک وہ آسمان والا ہے اسے وہ دیکھ لے گا!
ابرہہ مسکرایا اور کعبہ کی طرف بڑھا
مایوس بستی سے دور پہاڑوں پہ بیٹھے اہل قریش دیکھ رہے ہیں کہ عبدالمطلب غلاف کعبہ کو پکڑے ہوئے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائے مایوسی میں آخری امید جو دعا ہوتی ہے وہ مانگ رہے ہیں
ابرہہ آگے بڑھ رہا ہے
ایسے میں آسمان پہ کچھ شور ہوا
نگائیں اوپر اٹھیں
سامنے ابابیل ٹڈی دل کے جیسے آسمان پے چھا گئے ۔ ۔
فضاء سے کنکریوں کی بارش ہوئی
ابرہہ کا لشکر ،وہ ہاتھیوں کی طاقت والا لشکر درہم برہم ہوگیا!!
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں