کیا ہم بانجھ ہو گئے؟۔۔ایم اے صبور ملک

کون کہتا ہے کہ جنرل ضیا ء الحق مر گیا،نہیں جناب بالکل نہیں،جنرل ضیاء کی خاکی موت تو 17 اگست 1988کی سہ پہر بہاولپور کی بستی لال کمال میں ہوگئی تھی،لیکن جنرل ضیاء الحق کے لگائے ہوئے پودے اور ضیاء دور میں بوئی گئی لسانی،فروعی،مذہبی اور صوبائیت کی آگ ابھی تک اپنی پوری شدت سے جل رہے ہیں،ہماری نسل کے لوگ تو چلو پھر کسی حد تک پاکستان کے اُس سیاہ ترین دور کو اپنی گنہگار آنکھوں سے مشاہدہ کر چکی ہے،اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ 5جولائی 1977سے پہلے کا پاکستان کیسا تھا؟جس سے موجودہ نسل بالکل ناواقف ہے،جب مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی،عدم برداشت اور جہالت کا وہ عالم نہیں تھا جو ضیا ء دور میں شروع ہوا اور تاحال ختم ہونے کانام نہیں لے رہا،ضیاء دور میں گو کہ پاکستان میں گھٹن اور خوف کی فضا پر سو چھائی ہوئی تھی،لے دے کر ایک سرکاری ٹی وی ہو تا تھا،اور عوام کی سب سے بڑی عیاشی شب آٹھ بجے نشر ہونے والا ڈرامہ ہوتا تھا،جس میں مارشل لائی دور کا جبر اور دھونس کا رنگ بھی نمایا ں ہوتا تھا،لیکن پھر بھی اپنے اوّلین دور سے پی ٹی وی نے بھارت کے مقابلے میں کئی یادگار اور لازوال ڈرامے پیش کیے اور یہ سلسلہ ضیاء دور میں بھی جاری رہا،لیکن90کی دہائی کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور اب یہ عالم ہے کہ ُدنیا میں بہترین اُردوڈارمہ اور کئی نابغہ روزگار اہل فن پیدا کرنے والا سرکاری ٹی وی یا تو نجی چینلز سے ڈرامے خرید کر دکھا رہا ہے یا پھر اب نجی چینلز کی راہ پر چلتے ہوئے غیر ملکی ڈرامے دکھانے لگ گیا ۔

ہمیں کسی دوسرے  ملک خواہ وہ مسلم ہو یا نان مسلم  سے کوئی سروکار نہیں،ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا ہم اتنے بانجھ ہوچکے ہیں،کہ ہماری سرزمین نے ان کہی،وارث،تنہائیاں،اندھیرا اُجالا،عینک والا جن،دھوپ کنارے جسے ڈارمے بنانے والوں کو جنم دینا بند کردیا ہے کہ ہم ڈرامے کے لئے بھی دوسروں کے محتاج ہوچکے ہیں،یا پھر پاکستان کے تما م معاشرتی مسائل جن کو ہماری ڈرامہ انڈسٹری اپنے ڈرامے میں پیش کرتی تھی وہ سب حل ہوچکے ہیں،علم وفن کے بڑے نام پیدا کرنے والا ملک آج ڈرامے بنانے سے بھی گیا۔

ہماری اپنی تاریخ ہے اپنا تہذیب وتمدن ہے،اپنی خوبصورت اور شیریں زبان اُردو موجود ہے،آج وزیر اعظم صاحب کی فرمائش پر ترکی کا ایک ڈرامہ سرکاری ٹی وی پر دکھایا جارہا ہے،شنید ہے کہ وزیر اعظم صاحب ایک اور ترکی ڈرامہ دکھانے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں،اور اگر کرسی نے وفا کی تو پاکستان کے لوگوں کو یہ بھول ہی جائے گا کہ ہماری بھی کوئی ڈرامہ انڈسٹری ہوتی تھی،جو قومیں اپنی تاریخ،اپنا تہذیب وتمدن،اپنی شناخت اور اپنی انفرادیت کھو دیں،اُن کا پھر یہی حال ہو تا ہے،ساری زندگی مغرب میں گزار دینے والے عمران خان پاکستان کے معروضی حالات اور معاشرتی خدوخال سے یکسر بے خبر دکھائی دیتے ہیں،ورنہ سرکاری ٹی وی کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک پرانا ڈرامہ موجو د ہے جو ہماری موجودہ نسل کو دکھانا چاہیے تاکہ ہمیں پاکستان کے معاشرے کا وہ دورنظر آئے اور انھیں اس بات کی آگاہی ملے کہ ہم کتنے باصلاحیت ہوا کرتے تھے۔

لیکن بُرا ہو،ان حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کا کہ جنہوں نے شاید قسم اُٹھا رکھی ہے کہ پاکستان میں مقامی تہذیب وتمدن کے بجائے غیر ملکی کلچر دکھا کر رہیں گئے،زبان سے لے کر جمالیات اور فنون لطیفہ تک پاکستانی معاشرہ اپنی الگ شناخت رکھتا ہے،ماضی میں بھی ایسے تجربے ناکامی کا شکار ہو کر زمانے کی دھول کی نظر ہوگئے،یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا جب غیر ملکی فلم اور ڈرامے پاکستان میں دکھائے جارہے ہیں،اس سے پہلے جنرل ایوب خان کے دور تک اوربعد ازاں مشرف دور میں ہمارے سینماگھروں کی زینت بننے والی بھارتی فلمیں ہوں یا سٹار پلس کے ڈرامے،ہر دو نے ہماری روزمرہ معاشرت میں اپنا جو اثرو نفوذ قائم  کیا اور اُس کے نتیجے میں جو نسل پروان چڑھی،اُس پر پوری ایک ضیغم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

لاکھ کوئی ہمارا برادر اسلامی ملک ہو،لیکن اُن کے اور ہمارے رسم ورواج،تہذیب وتمدن میں لاکھوں میلوں کافرق ہے،ابھی چند دن پہلے فلم سٹار شان نے بھی یہی بات کی کہ ارطفرل غازی نامی ڈرامہ دکھانے سے ہمارا اپنا نقصان ہے،لیکن نوجوان نسل بجائے بات کو سمجھنے کے اُلٹا اس پر تنقید پر اُتر آئی،وجہ وہی کہ جس نسل کو جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ اپنے ماضی کی شاندار ڈرامہ انڈسٹری سے ناواقف ہو،جس کی پروداخت سٹار پلس اور بھارتی فلموں کے سائے میں ہوئی ہو،اور جس کو مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا زہر پلایا گیا ہو،ایسے لوگوں کی شان پر تنقید کوئی نئی بات نہیں،سوشل میڈیا پر ایسی ہی جوان نسل ترکی ڈرامے کی گرویدہ ہے،نقار خانے میں طوطی کی آواز والا حساب ہے اگر کوئی ان کی بات کی مخالفت کردے تو اُس کی نسل سے لے کر ایمان تک کا پوسٹ مارٹم ہو جاتا ہے۔

خلافت کے نام پر عثمانیہ سلطنت نے جو کارنامے سرانجام دئیے،وہ اگر قابل تعریف اور اُمت مسلمہ کے مفاد میں ہوتے تو کمال اتا ترک کو خلافت کی بساط نہ اُلٹنا پڑتی،اسلام کے ابتدائی دور میں یا یوں کہہ لیں مسلمانوں میں یار غارسالتماب رﷺ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور سے شروع ہونے والی خلافت تیسری صدی ہجری میں جب ملوکیت میں تبدیل ہوگئی،اور بعد ازاں عباسیوں اور عثمانیوں نے قہر ڈھائے وہ تاریخ کا حصہ ہیں،لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو بھی اپنے مخصوص مذہبی فرقے اور تعصب کے زاویے سے دیکھتے ہیں،جبکہ ازروئے قرآن جب ہم سے ہمارے پچھلوں او ر نہ ہی ہمارے اگلوں کے بارے میں روز قیامت سوال کیا جائے گا،جب ہر ذی روح اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے تو پھر کیوں ہم تاریخ کے ساتھ یہ بے انصافی کرتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں درسی کتابوں،مطالعہ پاکستان،ہمارے فرقے کی کتابوں میں پڑھنے کو ملتا ہے،اُسی کو پورا سچ مان کر ساری زندگی اسی دائرے میں گزار کر راہی عدم ہو جاتے ہیں،سوچنے کانام نہیں لیتے،جبکہ اللہ بار بار قرآن میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے،ہم کیوں نہیں بین المذہب مکالمے اور غیرجانبدار تاریخ کو لکھنے کی جانب قدم بڑھاتے،اور جب کوئی سر پھرا ایسی جسارت کربیٹھے تو اُس پر فتوی لگاکر اُس کی کتابوں کو نذر آتش کرنے پر تل جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا اس قوم پر رحم کیجیے،ان کو اپنی تہذیب اپنے تمدن اپنی زبان سے دور نہ کریں،انھیں غیر ملکی فلمیں اور ڈرامے دکھانے کے بجائے اپنے ملک کے اپنی سرزمین کے اہل علم وفن،اہل ہنر کے کمال فن سے روشناس کروانے کی سعی کی جائے،یہ مٹی بڑی زرخیر ہے،مقصد صرف اس سے استفادہ حاصل کرنے اور اس کو پالش کرنے کی ہے،آج بھی ڈرامے کا وہ سنہرا دور واپس آسکتا ہے،بس اپنے پندار سے نکلنے کی دیر ہے،پھر دیکھیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply