شری کٹاس راج مندر/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری(1)

کوہستانِ نمک کا علاقہ ہمارے لیئے ایک عظیم تاریخی سرمایہ جو اپنے آثارِ قدیمہ اور قدامت کے لحاظ سے ہڑپہ و موہنجوداڑو سے کسی طور کم نہیں۔ لیکن افسوس کے ان علاقوں کو سرکاری سطح پہ ابھی اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنا کے ان کا حق تھا۔
یہاں اب بھی آپ کو کئی قلعے و مندر خراب حالت میں ملیں گے۔
اپنی تاریخی حیثیت اور مذہبی اہمیت کے حوالے سے کٹاس راج کے مندر اس وقت کوہ نمک کا مشہور اور اہم ترین مقام تصور کیے جاتے ہیں۔
شری کٹاس راج کمپلیکس جسے قلعہ کٹاس بھی کہا جاتا ہے، تحصیل چوآسیدن شاہ میں چکوال شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ کمپلیکس اس سڑک کے ساتھ واقع ہے جو کلر کہار کو دولمیال گاؤں کے قریب چوآسیدن شاہ سے ملاتی ہے۔

تاریخ ؛
کٹاس کا اصلی نام ”کاٹکشا” بتایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے برستی آنکھیں۔ اس جگہ رہنے والے بہت سے برَہمن اسے کٹاشا یا کٹاکشا بھی کہتے رہے ہیں۔نومبر 1983 میں آنے والے ہندو یاتریوں کے لیڈر ”پنڈت موہن لال” کے مطابق کٹاس راج کا اصلی نام ”کے ٹیکش راج” تھا جس کے معنی ہیں ”ناگوں کا بادشاہ”، کیونکہ اس جگہ کا تعلق ہندو دھرم کے بھگوان شنکر یا شیو جی سے ہے۔ یہ علاقہ پہلے اور آج بھی سانپوں کا مسکن ہے۔

روایات کے مطابق یہ ابتداء ہی سے ایک مقدس مقام رہا ہے۔ ہندو دھرم کی ”مہا بھارت” (مہابھارت ہندوستان کی قدیم اور طویل ترین منظوم داستان ہے جسے ہندو مت کے مذہبی صحائف میں معتبر حیثیت حاصل ہے) جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی تین سو سال پہلے کی تصنیف ہے، کے مطابق کٹاس ہی وہ جگہ ہے جہاں پانڈوؤں نے اپنی جلاوطنی کا ایک اہم حصہ گزارا تھا۔ پانڈوؤ پانچ بھائی تھے جو مہابھارت کے مرکزی کردار ہیں۔ ان کے نام یدھشٹھیر، بھیم سین، ارجن، نکول اور سہدیو تھے۔ ان پانچوں بھائیوں کی ایک بیوی تھی جس کا نام دروپدی تھا۔ ان بھائیوں نے ساتھ مل کر کورؤں سے زبردست جنگ کی اور فتح یاب ہوئے۔
ہندوؤں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان بھائیوں نے یکشوں کے ساتھ پہیلی کے مقابلے میں حصہ لیا تھا، جیسا کہ ”یکشا پرشنا” میں بیان کیا گیا ہے۔
ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ ہندو دیوتا کرشنا نے اس مندر کی بنیاد رکھی، اور اس میں ایک شیولنگ بنایا جو دھرتی پر سب سے پہلا شیو لنگ تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں اس جگہ کا دورہ کرنے والے ایک چینی سیاح ”ہیون سانگ” نےاسے ”سنگھ پورہ” سلطنت کہا ہے جہاں ایک سٹوپہ موجود تھا جو تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی شہنشاہ اشوک اعظم کے دور سے تعلق رکھتا تھا۔ ماہر آثارِ قدیمہ الیگزینڈر کننگھم نے بھی اپنی کتاب میں کٹاس کے پاس ”سنگھاپورہ” نامی ایک بودھ سلطنت کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ آثار زیادہ قدیم نہیں بلکہ 625 سے 939 عیسوی کے درمیان تعمیر کئے گئے ہیں کہ ان کا طرزِ تعمیر کشمیری ہے۔

1929 میں یہاں کا دورہ کرنے والے انگریز ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر سٹیفن کے مطابق یہ آثار بدھ دور کے ہیں جنہیں اشوکا سے قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ ان کی رائے میں یہ بدھوں کے سٹوپا تھے جنہیں بدھ مت کے زوال کے بعد یہاں کے ہندوؤں نے مندروں میں تبدیل کر دیا تھا۔
یہ مقام سکھوں کے لیے بھی اہم ہے۔ گیانی گیان سنگھ (1880) ”تواریخ گرو خالصہ” میں لکھتے ہیں کہ گرو نانک جی 1519 میں کٹاس راج آئے اور بیساکھی مہینے کے پہلے دن یہاں پہنچے۔ گرو جی نے گھریلو زندگی کو ترک کرنے، ایک اللہ کی عبادت کرنے کی فضیلت پر خطبہ دیا اور رسم پرستی کے خلاف بات کی ۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں روہتاس (اپنے قلعے کے لیے مشہور) سے پنڈ دادن خان جاتے ہوئے کئی بار کٹاس راج کا دورہ کیا۔ اس کا پہلا سفر 1805 میں تھا جب وہ کٹاس راج میں نہانے کے لیے آیا تھا۔
باؤنڈری کمشنر کیپٹن جیمز ایبٹ،1848 میں کٹاس راج کے بیساکھی میلے کا عینی شاہد تھا جس کے مطابق میلے میں 20,000 لوگوں نے شرکت کی جو مہنگے لباس پہنے بغیر کسی روک ٹوک کے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

مندروں کا قیام ؛
گندھارا کی تباہی کے بعد جب اس خطے میں ہندومت نے زور پکڑا تو ہندو شاہی سلطنت نے ساتویں سے دسویں صدی کے بیچ یہاں کئی مندروں کی بنیاد رکھی جن میں کٹاس کا مندر بھی شامل تھا۔ جنرل کننگھم کے مطابق اگرچہ یہ مندر کشمیری دور کے ہیں لیکن وہ اس تصور کو بھی رد نہیں کرتا کہ پانڈوؤں نے انہیں تعمیر کروایا ہو گا۔اس کی تحقیق کے مطابق یہاں بارہ مندر تھے جو ایک دوسرے سے منسلک تھے۔

یوں یہ مقام بدھ مت و ہندومت کے ساتھ ساتھ سکھوں کے لیئے بھی متبرک ٹھہرا۔

تقسیم سے پہلے تک یہ جگہ ہندو یاتریوں سے بھری رہتی تھی خصوصاً ”شیوراتری” کے تہوار پہ شدید ہجوم دیکھنے میں آتا تھا۔ تقسیم کے بعد دہائیوں تک یہ مقام نظر انداز رہا حالانکہ پاکستانی ہندو وقتاً فوقتاً اس جگہ کا دورہ کرتے رہتے تھے، لیکن وسیع کمپلیکس کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے۔ بھارت سے ہندو یاتریوں کی آماد بھی پاک بھارت تعلقات سے مشروط رہی۔

اس جگہ کے دن تب پھرے جب مشرف دور میں بھارتی نائب وزیراعظم ”لال کرشن ایڈوانی” نے 2005 میں یہاں کا دورہ کیا اور اس کی حالت دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے بحالی کا کام شروع کیا جن میں تالاب کی صفائی اور کچھ مندروں کی مرمت شامل تھی۔
وزیراعظم عمران خان کے دور میں کٹاس راج کمپلیکس کی بہتر مرمت کر کے بھارتی ہندوؤں کو یہاں عبادت کی غرض سے ویزے جاری کیے گئے۔

مقدس تالاب/ جھیل ؛
کٹاس راج مندروں کی مقدس جھیل کے بارے میں بھی مختلف روایتیں ملتی ہیں۔
براہمنوں کی روایت کے مطابق جب شیو دیوتا کی بیوی ”ستی” کا دیہانت ہوا تو انہیں اتنا دکھ ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ان آنسوؤں سے دو متبرک تالاب وجود میں آئے ایک راجستھان میں واقع ”پُشکر” شہر میں واقع ہے جبکہ دوسرا ”کٹک شیل” کا تالاب۔ یہ  کٹک شیل آگے جا کے کٹاس کہلایا۔

ایک اور روایت کے مطابق بھگوان شیو کے آنسو اپنی بیوی نہیں بلکہ کٹاس نامی گھوڑے کی موت پر نکلے تھے۔
سناتن دھرمی ہندوؤں کا اعتقاد ہے کہ بھگوان شنکر کا ظہور اسی جگہ پہ ہوا اور ان کی جائے ظہور سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا جس سے امرت بہنے لگا۔ چونکہ بھگوان شنکر سانپوں کا بادشاہ ہے سو یہ جھیل سانپوں سے بھری پڑی ہے جو کسی کو ضرر نہیں پہنچاتے۔

تاریخِ چکوال میں سبحان رائے بٹالوی کی تصنیف ”خلاصۃ التواریخ” کے حوالے سے درج ہے کہ ؛

”ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین کی دو آنکھیں ہیں، دائیں آنکھ اجمیر کے قریب پُشکر کی جھیل ہے جبکہ بائیں آنکھ کٹاس کی یہ جھیل ہے۔”

جنرل کننگھم اس کے بارے میں لکھتے ہیں ؛

”کٹاس کا مقدس چشمہ جوالا مکھی کے بعد پنجاب میں یاتریوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے۔ تالاب جزوی طور پر مصنوعی ہے جس کی گہرائی 23 فٹ سے زیادہ نہیں۔ چٹان کو کاٹ کر گنیاں نالے کی گزرگاہ میں واقع قدرتی طاس کو چوڑا کر دیا گیا ہے۔ تالاب کے اوپر ہاتھوں سے بنی مضبوط دیوار ہے۔ یہ دیوار ایک ساتھ تعمیر کی گئی تھی تاکہ نالے کے پانی کو اکٹھا کر کے ایک بڑی جھیل بنائی جا سکے۔ اس تالاب میں کئی زہریلے سانپ اور چھپکلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔”

برہمنوں کا خیال ہے کے یہ بند راجہ پاتک (یا پتک) جو دہلی کے کسی حکمران کا وزیر تھا، نے تعمیر کروایا تھا۔
سیمنٹ کی فیکٹریوں اور علاقے میں دھڑا دھڑ سفیدے کی شجرکاری نے زیر زمین پانی ختم کر کے اس چشمے کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ سوکھ گیا۔ اُس دور کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر سوموٹو لیا اور سیمنٹ کمپنی کو جرمانہ کرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کو بھرنے کا بندوبست بھی کیا۔ آج کل یہ چشمہ ایک ٹیوب ویل کے پانی کی بدولت رواں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply