وقت کی قدر و قیمت/لبنیٰ حقانی

وقت کیا ہے؟ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ماہرعمرانیات کا کہنا ہے کہ وقت ہمارے تجربات اور عوامل کا ایک حصہ ہے۔وقت تین قسم کا ہوتا ہے۔ماضی ، حال و مستقبل۔ اللہ تعالیٰ نے موجود وقت ہمیں تحفہ دیا ہےاور ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں۔ ہم دنیا سے جانے سے پہلے کچھ کرکے جائیں تاکہ ہم آخرت کی تیاری کرسکیں۔ہم توبہ کریں اس لیے موجودہ وقت یعنی حال کو ”Present ” کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہوتا ہے۔ اور ماضی کو ”History ” کہتے ہیں۔کیونکہ ہم ہر روز جب صبح جاگتے ہیں تو ایک صفحہ، روز ہم اپنی صبح کا لکھتے ہیں۔ اور آنے والا کل یعنی مستقبل ایک ”Mystery ” ہے۔ کیونکہ کل کیا ہونا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔

وقت کی مثال ایسی ہے جیسے انسان کی زبان سے کوئی بات نکل گئی ہوتو ظاہر ہے دوبارہ ان الفاظ کو زبان میں نہ ڈال سکتے ہیں۔ وقت بھی اگر ایک بار گزر جائے کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔
وقت بہت قیمتی ہے۔ہم اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وقت برباد کرجاتے ہیں۔آج کا کام کل کریں گے کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہماری عمر تو گزر جاتی ہے وہ کل کبھی نہیں آتا۔اس کی وجہ ہماری سُستی ہے۔ حدیث کی مشہو ر کتاب ترمذی شریف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ ابن آدم کے دونوں قدم اس کے رب کے پاس سے تب تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق دریافت نہ کرلیا جائے۔اپنی عمر کہاں گزاری، جوانی کہاں صَرف کی، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جتنا علم حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر آگے جانا ممکن نہیں۔ ان سب کا تعلق وقت اور زندگی سے ہے۔

وقت کو سوچ سمجھ کر استعمال میں لانا چاہیے۔ وقت کبھی کسی کے لیے نہیں رکتا۔ امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے اس پر ہمیشہ افسوس کرتا ہوں۔ اور ہم کیا کرتے ہیں کہ ہمیں موقع چاہیے ہوتا ہے کہ ہم کسی دوست یا رشتہ دار کے ساتھ کہیں چائے پینے جائیں یا گھومنے پھرنے اور آوارہ گردی کرنے لگیں۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ پڑھنا تو ہوگا کل یا پرسوں لیکن رشتہ داروں اور دوست احباب کیساتھ گھومنے پھرنے کا دوبارہ موقع نہ ملے گا۔ ایسے ہی ہمیں آج ایک رشتہ دار ملا تو کل کوئی دوست ملا ، یوں ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔اور وہ کل پھر کبھی نہیں آتا اور یوں ہم اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ جب سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم نے جو کچھ بھی کرنا ہے بس ابھی ہی کرنا ہے۔ اسٹارٹ لینا بہت ضروری ہے۔ماضی پر کفِ افسوس ملنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے آج آفس جوائن کیا ہے، کل ویسے بھی چھٹی ہے تو پرسوں سے اس کام کو شروع کریں گے۔ بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ابھی ہی کام شروع کریں، پرسوں کا انتظار بالکل نہ کریں تاکہ جلد پورا کرسکیں۔کام نمٹانے کے لیے وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔جب بھی موقع ملے کام مکمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسے بہانے تلاش کرتے رہے جو ہمارے کام میں رکاوٹ بنے تو یہ ہماری عادت بن جائے گی اور روز ہمیں نئے بہانے مل جائیں گے اور اس طرح ترقی کے مواقع ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

قاسم علی شاہ پاکستان کے بہت بڑے اور مشہور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ان کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی،آخر میں وہ بات اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہونگی۔ وہ اپنی  کتاب ”اپنی تلاش” میں لکھتے ہیں: ” انسا ن جب کسی کام کے سفر پر نکلتا ہے تو اس سفر میں اسے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ میں موسیٰ   ہوں یا فرعون، اگر کنارے کے قریب پہنچ جائےتو پتہ لگتا ہے اصل میں ، میں کون ہوں۔پھر اب اسی کے ساتھ انجام کی طرف چل پڑتے ہیں اسی شناخت کے ساتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں”۔

ہماری پیدائش سے موت تک جو وقت، جو زندگی ہم گزارتے ہیں وہ سفر ہی ہے۔اور یہ ہم پر ہے کہ اپنی شناخت کیسی بناتے ہیں۔ اگر ہم نے نیک کام کئےہیں تو ہمارا شمار نیک لوگوں میں ہوگااور نیک کام سے ہم یاد کیے جائیں گے۔ اور اگر ہم نے برے کام کیے ہیں تو ہمارا شمار بُرے لوگوں میں ہوگا اور ہمیں بُرے کام کے وقت یاد کیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرنے کے بعد انسان اس کے کام سے یاد کیا جاتا ہے، تو زندگی کے اس سفر کو اور قیمتی وقت کو سوچ سمجھ کر گزاریں کیونکہ یہ وقت پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گا۔مشہور کہاوت ہے۔ وقت دو دھاری تلوار ہے جو ہرطرف سے کاٹ دیتی ہے۔ اگر انسان وقت کو درست استعمال کرکے اس کو کاٹ نہ ڈالے تو اس نے بہر حال انسان کو ہر طرف سے کاٹ ڈالنا ہے۔ لہذا ہم کوشش کرکے وقت کو کاٹ ڈالیں اور اس کو دین و دنیا کی منفعت کے لیے بہتر استعمال کریں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply