• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک اور اپوزیشن سے دوری ۔۔۔۔عنایت اللہ کامران

جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک اور اپوزیشن سے دوری ۔۔۔۔عنایت اللہ کامران

جماعت اسلامی نے اے پی سی میں شرکت سے انکار کر دیا۔۔۔ بہت سے لوگوں کے لیے  یہ بات باعث حیرت ہوگی۔۔۔ ایک ٹی وی چینل نے تو یہ جملہ فلیش کر دیا “جماعت اسلامی کا انکار۔۔۔ مولانا فضل الرحمن کو دھچکا”۔ قبل ازیں جناب سراج الحق صاحب نے ن لیگ ،پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر حکومت مخالف کسی بھی تحریک کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے مہنگائی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف اپنی الگ تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور اس حوالے سے لاہور اور فیصل آباد میں دو عوامی مارچ بھی کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں مارچ کامیاب رہے ہیں۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی ایک، سینٹ کی دو اور صوبائی اسمبلیوں(سندھ و کے پی کے) کی محض دو نشستیں رکھنے کے باوجود نہ صرف سٹریٹ پاور کی حامل ہے بلکہ عام لوگ بھلے اسے ووٹ نہ دیں لیکن اس کی کال پر میدان میں نکلتے ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ نہ چلنے کے حوالے سے جماعت اسلامی کا مؤقف یہ ہے کہ ملک کے موجودہ بگاڑ میں ماضی کی حکمران پارٹیوں کا بھرپور کردار ہے۔ بھاری قرضے، کرپشن، رشوت، اقرباء پروری، بدامنی، لاقانونیت، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی  ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے اس لیے سب سے پہلے دونوں جماعتیں قوم کے سامنے آکر اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور پھر قوم سے معافی مانگ کر آئندہ اپنے قول و فعل کو درست کریں۔

26 جون کو ہونے والی اے پی سی میں شرکت کے لیے  مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی قیادت کے پاس خود دعوت دینے پہنچے لیکن وہاں سے انہیں لال جھنڈی دکھا دی گئی۔ الیکشن 2018ء میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی، حالیہ فیصلے اس کا نتیجہ ہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کی مذکورہ دونوں پارٹیوں نے کھلواڑ کیا۔ مشرف دور میں اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میثاق جمہوریت سائن کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ باوردی صدر کے زیر سایہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا، لیکن جب الیکشن کا وقت آیا تو دونوں پارٹیوں نے این آر او کے چھتر سایہ میں الیکشن میں حصہ لیا، جبکہ جماعت اسلامی اپنے بائیکاٹ کے اعلان پر قائم رہی۔ اس وقت دونوں پارٹیوں کے لیے  وردی والا صدر بھی کوئی مسئلہ نہیں بنا۔

عدلیہ بحالی تحریک کے حوالے سے مارچ میں لیاقت بلوچ صاحب کی قیادت میں جماعت کے کارکنان سارا دن پولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا سامنا کرتے رہے جبکہ میاں صاحب اے سی  والے کمرے میں آرام سے بیٹھے رہے، جب اندرون خانہ معاملات طے پا گئے تو باہر نکل کر قیادت سنبھال لی، کسی کو بتائے بغیر گوجرانوالہ نکل پڑے۔ سارا دن پولیس کے خلاف مزاحمت کرنے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔باقی کی کہانی سب کو معلوم ہی ہے۔

ماضی میں جماعت اسلامی قومی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنی رہی ہے۔ 1970ء کے انتخاب میں جماعت اسلامی کو مشرقی و مغربی پاکستان(دونوں حصوں) سے تقریباً 20 لاکھ ووٹ ملے تھے اور وہ تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی اس کے بعد 2013ء میں جماعت اسلامی نے اپنے پرچم اور نشان پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور کم و بیش اتنے ہی ووٹ لیے  تھے جتنے مغربی پاکستان سے 1970ء میں لیے  تھے۔

جماعت اسلامی نے 1997ء اور 2008ء میں الیکشن کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ 2018ء میں جماعت کو قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست ہی مل سکی۔
جماعت اسلامی کی ماضی کی سیاسی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر حالیہ فیصلوں کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جماعت نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا ہے اور اپنی پالیسی تبدیل کی ہے۔ جماعت کے اس دوٹوک مؤقف سے کارکنان کے حوصلے بڑھے ہیں اور 2018ء الیکشن میں ناکامی کی گرد کافی حد تک چھٹ گئی ہے۔

جماعت کی موجودہ پالیسی نے عوام کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے، اگرچہ جماعت کے سپوکس مین کو ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں دعوت نہیں دی جاتی (واللہ اعلم پیمرا نے روک رکھا ہے یا چینلز کی اپنی پالیسی ہے) لیکن جماعتی ترجمان کی عدم موجودگی میں حالیہ فیصلوں پر بحث ضرور کی گئی ہے یہ اگرچہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے لیکن پھر بھی اس بات کا مظہر ہے کہ جماعت کے وزن کو محسوس کیا گیا ہے۔ جماعت کی اپوزیشن سے الگ پالیسیوں پر تکلیف دونوں پارٹیوں کو بھی ہوئی ہے جس کا ثبوت سوشل میڈیا پر ان پارٹیوں کے کارکنان کا واویلا اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔

اس وقت جماعت  جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حقیقی اپوزیشن جماعت اسلامی ہی ہے۔ عوام کی ترجمانی کا حق جماعت اسلامی ہی ادا کر رہی ہے۔ جماعت کی قیادت احتجاجی مظاہروں میں حکومتی پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کررہی ہے۔ سینیٹرسراج الحق اپنے مخصوص انداز میں حکومتی نااہلیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی جملے سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیں جن میں سے ایک یہ جملہ بھی ہے “تحریک انصاف کی نیتوں پر شک نہیں ان کی نالائقیوں پر یقین ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا یہ انداز نرالا ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کی کرپشن کے خلاف بھی بات کی جاتی ہے اور حکومتی نااہلیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں عام آدمی جماعت کو ڈسکس کررہا ہے جبکہ مخالفین نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے تیر و نشتروں کا رخ جماعت اسلامی کی طرف کررکھا ہے۔
جماعت اسلامی کی ان پالیسیوں کے اثرات عوام پر کس قدر مرتب ہونگے اور اس کے نتائج کیا برآمد ہونگے فی الحال تجزیہ کرنا کچھ مشکل ہے تاہم یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ سراج الحق نے عام آدمی کو اپنی جانب متوجہ ضرور کرلیا ہے۔

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply