لازوال گلوکارہ،نیّرہ نور۔۔ثناء اللہ خان احسن

تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں پلکیں بچھا دوں
ساری عمر بِتادُوں

اور نیرہ نور سچ مچ اپنے سجناں کے ساتھ تمام زندگی بتِا گئیں۔

کون جانتا تھا کہ 1950 میں بھارتی ریاست آسام کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والی بچی پاکستان کی نامور گلوکارہ بنے گی کیونکہ نیرہ نور کے خاندان کا فن گائکی سے دور دور  تک بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ البتہ نیرہ کہتی تھیں کہ بچپن میں وہ کملا اور کانن دیوی کے مذہبی گیتوں (بھجن)، ٹھمری، غزل اور بیگم اختر (اختری بائی فیض  آبادی)سے بہت متاثر تھیں۔ نیرہ نور کا خاندان ایک تجارت پیشہ خاندان تھا اور عرصہ پہلے یہ بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر سے آسام ہجرت کرگئے تھے۔ 1958 میں یہ خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا جبکہ نیرہ نور کے والد اپنی جائداد اور کاروبار کی دیکھ بھال کے لئے 1993 تک آسام میں ہی رہائش پذیر رہے۔

نیرہ نور لاہور کے نیشنل آرٹس کالج کی طالبہ تھیں اور اپنی من موہنی سریلی سی آواز میں کالج کے فنکشنز میں شوقیہ گایا کرتی تھیں۔ نیرہ نور انتہائی دبلی پتلی اور دھان پان سی لڑکی تھیں جس کو اگر انڈر ویٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے1968ء میں نیرہ کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ایک عشائیے کے بعد گاتے سناتھا ، اس کے بعد نیرہ نور نے پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن کے لیے گیت گانے سے اپنے فن کا باقاعدہ آغاز کیا۔

1971 میں نیرہ نے ٹیلی وژن پر شعیب ہاشمی کے بچوں کے کھیلوں کے پروگرامز ٹال مٹول اور سچ گپ سے ہلکے پھلکے گیت گانے کا آغاز کیا۔
تاہم بعد میں انہوں نے بہت سے نامور شعرا جیسے مرزا اسداللہ غالب، ناصر کاظمی، ابن انشاء اور فیض احمد فیض وغیرہ کاکلام نہائیت دلکش انداز سے گایا۔

نیرہ نور انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی خاتون تھیں۔ ٹیلی ویژن پر اپنے ابتدائی دنوں میں یہ دھان پان سی لڑکی ایک چادر اوڑھے بیٹھ کر غزلیں وغیرہ گایا کرتی تھی۔ جب ایک عرصہ تک وہ اسی طرح بغیر ہلے جلے اور بغیر کوئی تاثر دیے سیدھے سادھے انداز میں گاتی رہیں تو اکثر لوگوں کو شبہ ہوا کہ کہیں یہ لڑکی معذور وغیرہ تو نہیں ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہوئی تھی کہ یہ لڑکی گانا گانے کے بعد بیہوش ہوجاتی ہے۔ لیکن پھر کافی عرصہ بعد یہ لڑکی ایک پروگرام میں کھڑے ہوکر گاتی نظر آئی، تو لوگوں کے شکوک و شبہات ختم ہوئے۔ ان کے بہترین گیتوں میں بہزاد لکھنوی کی یہ غزل انتہائی مقبول ہوئی بلکہ یہ کہیے کہ یہ غزل نیرہ نور کی شناخت بن گئی۔
ایک شاہکار ہے جس کے گانے پر نیرہ نے بے شمار داد تحسین وصول کی ہے۔
اے جذبہء دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے

سن 1973 سے نیرہ نور نے پاکستانی فلموں کے لئے بھی گانا شروع کیا۔ ان کی اولین فلموں میں “ گھرانہ” اور “ تان سین” شامل ہیں۔ اس کے بعد نیرہ نے پاکستانی فلموں کے لئے سینکڑوں گانے گائے۔

سن 1980 میں پاکستان ٹیلیویژن کے ڈرامہ” تیسرا کنارہ” جس میں مرکزی کردار ساحرہ کاظمی اور راحت کاظمی نے ادا کیا تھا اس میں نیرہ نور کی گائی احمد شمیم کی نظم “ کبھی ہم خوبصورت تھے” نے نیرہ نور کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور یہ نظم محبت کرنے والے پریمیوں کے لئے ایک مثال بن گئی۔ خاص طور پر لڑکیاں تو آج تک اس نظم کو سُن کر خواہ مخواہ جذباتی ہوجاتی ہیں۔

پاکستانی فلموں پر زوال آیا تو نیرہ نور نے خود کو فلمی گائیکی سے علیحدہ کرلیا البتہ وہ وقتاً فوقتاً ٹی وی کے لئے گاتی رہیں۔ ان کا گایا ہوا ملی نغمہ
“ وطن کی مٹی گواہ رہنا” نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اور آج اس نغمے کو ملی نغموں میں قومی ترانے کی سی حیثیت حاصل ہے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نیرہ نور کے شوہر ٹی وی ڈراموں کے مشہور فنکار شہر یار زیدی ہیں۔ ان کو نیرہ کی آواز سے عشق تھا اور یہ نیرہ کے شوہر ہوتے ہوئے بھی مختلف موسیقی کی محافل میں نیرہ کو انتہائی انہماک سے دیکھتے اور سنتے تھے۔ نیرہ نور کے دو بیٹے ہیں جن کے نام نادِ علی زیدی اور جعفر زیدی ہیں جو دونوں بہت ویل سیٹلڈ ہیں۔ نادعلی کی شادی ٹی وی کی مشہور اینکر ڈاکٹر ثنا سے ہوئی تھی جبکہ جعفر زیدی کی شادی معروف اداکار عثمان پیرزادہ کی بھتیجی یمینہ پیر زادہ سے ہوئی۔

نیرہ کُل پاکستان محفل موسیقی میں تین سونے کے تمغے جیت چکی ہیں، ان کو بہترین پس پردہ فلمی گلوکارہ کا نگار اعزاز بھی عطا کیاگیاتھا۔ پاک و ہند میں غزل و شاعری کے دلدادہ لوگوں کے لیے نیرہ نے لاتعداد مشاعروں اور موسیقی کی محفلوں میں اپنی آواز سے شعروں کو زندگی بخشی ہے۔

یوں بظاہر یہ ایک عام سی نظر آنے والی دھان پان سی لڑکی جس کا نہ کسی فنکار گھرانے سے تعلق تھا اور نہ گائیکی کی تربیت حاصل کی لیکن اپنی سریلی آواز اور خداداد صلاحیت کی بنا پر بڑی خاموشی سے بغیر کسی شو شا یا نمود و نمائش کےانتہائی  کامیاب ترین زندگی گزار گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیرہ نور شادی کے بعد سے شہر یار زیدی اور اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں ہی مقیم تھیں۔ چند روز سے ان کی طبیعت خراب تھی اور آج وہ انتقال کرگئیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالی مغفرت فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply