• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یہ منفعت بخش تجارتیں،یہ رنگین دکانداریاں۔۔۔۔محمد حسین ہنرمل

یہ منفعت بخش تجارتیں،یہ رنگین دکانداریاں۔۔۔۔محمد حسین ہنرمل

خدمت کے نام پر یار لوگوں کی دکانداریاں خوب چلتی ہیں یوںبے روزگاری کے اس موسم میں آج کل ہرایک کاکسی نہ کسی نام پر دکان لگانے کودل کرتاہے۔ آج کل ہم اگر اپنے شہروں بالخصوص مضافاتی علاقوں میں جائیں توآپ کو تعویذ کرانے، جن اوربھوت نکالنے والوںکی دکانداریاںبہت مزے میں ملیں گی ۔بلکہ یوں کہیے کہ اس نوع کی تجارت ہرحوالے سے سدابہارتجارت ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے چونکہ اپنی دانست کے مطابق (نعوذبااللہ) انسانوںکی تقدیربدلنے جیسے اہم کام کا بیڑہ اٹھا رکھا ہوتا ہے ،سُو ان کی دکانوں پر گاہک زیادہ بھی آتے ہیں اور تاش کے پتوں کی طرح پیسے نچھاورکرنے سے دریغ بھی نہیں کرتے ۔کتنا بڑاالمیہ ہے کہ ان جعلی عاملوں کے ہاتھوں اس ملک میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں اور لاکھوں آج بھی وسیع وعریض سَرابوں میں پیاسے پھرائے جاتے ہیں ۔چند مہینے پہلے سندھ کے شہر بدین میں پولیس نے اس نوعیت کے ایک سنگین واقعے میں ایک ملزم کو گرفتار کرلیاتھا۔ ملزم پردوپھول جیسے ننھے منھے بچوں کے قتل کا الزام تھا ۔ جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اس مجرم نے بتایا کہ’’ بچوں کو قتل کرنے کا منصوبہ اس کااپنانہیں بلکہ اس کے ماموں نے ان کو اس راستے پرلگایاہے ۔ ماموں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ ’’اگر وہ کالے جادو کا علم سیکھنا چاہتے ہے تواسے کم ازکم دوکم سن بچوں کو قتل کرناہوگا، یوں اس طرح کرنے سے وہ مذکورہ علم سیکھ کراپنا روزگار شروع کرینگے‘‘ ۔ قسمت بدلنے، جنات اوربھوت بھگانے والے فراڈیوں کے ہاں یہ ایک منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔کیا کوئی ہے جوکراچی ، لاہور ، ملتان ، پشاور اور ملک کے دیگر بڑے شہروں کے فٹ ہاتھوں پر قسمتوں کے جھوٹے دھنیوں سے لاعلم ہو ؟کیا کوئی ہے جس نے اب بھی ایسے دھوکے بازوں اور بہروپیوںکے سبز باغ کی کہانیاں نہیں سنی ہونگی ؟آپ قبرستانوں پر جاکر دیکھیے کہ کتنے فراڈیے آپ کو اس روپ میں ملیں گے جو سادہ لوح عوام کو ورغلارہے ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گھریلو ناچاقیوں کا سبب اکثر یہی لوگ بن رہے ہیں جو پیسوں کے عوض لوگوں کے دل ودماغ کو اپنے ہی پیاروںکے بارے میںطرح طرح کے شکوک اوربدگمانیوں کے مغلظات سے پراگندہ کرتے ہیں ۔ اب جب ایک مرتبہ کسی پیر صاحب کے بارے میں کسی محلے یا دیہات میں کچھ لوگوں کا اعتقاد بنتاہے تو پھربڑے سنجیدہ لوگ بھی اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔اور پھرخداکی قادر مطلق ذات سے امیدباندھنے کی بجائے ان لوگوں کو صرف ایسے بہروپیوں کی نظراور توجہ درکار ہوتی ہے ۔گلوبل ویلیج اورانٹرنیٹ کے اس دور میں چونکہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ماضی کے مقابلے میں عشق کے امراضات کہیں زیادہ لاحق ہوتے ہیں، یوں محبت کے ان پروانوں کو اپنا محبوب صرف پیرصاحب ہی کی دکان سے ملتاہے۔ اسی طرح بانجھ پن کا علاج ہو یا رزق میں کشادگی ، آسیب یابھوت بھگانا ہو یا دشمن کو دونوں جہانوں میں رسوا کرنا مقصود ہو، غرض ان سب حاجات کو پوراکرنے کیلئے لوگوں کو ان جعلی پیروں کی صرف ایک ہی نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔بے اولاد اورساس بہو کے جھگڑوں سے تنگ آئی ہوئی عورتیں یا خاوند کو زیر کرنے کی خواہش رکھنے والی خواتیں جب ان جعلسازوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں تو باامر مجبوری پیسہ لٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی عصمتیںبھی قربان کردیتی ہیں۔ ان بہروپیوںکے حلقے جوں جوں وسیع ہوتے ہیں، توں توں ان کو اپنی جعلی روحانیت اور تقویٰ کے اوپر یقین بھی پختہ ہوتاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بعد میںاپنے آپ کو اہل اللہ بھی باور کراتے ہیں اور ولی اللہ بھی بلکہ بعض تو عالم الغیب ہونے کادعویٰ تک کربیٹھتے ہیں۔بارہا یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ قرب خداوندی کے زعم میں مبتلا یہ حضرات ایسی سیاہ کاریوں کو بھی دین ِ مبین کاحصہ سمجھتے ہیں جس کے قریب جانا بھی ہماری شریعت گوارانہیں کرتی، لیکن یہ اپنی جعلی ولایت کی آڑ میں اس کو بھی اپنے لئے جائز اور مباح سمجھتے ہیں ۔میں نے اپنے علاقے میں ( جہاں اس قسم کے فراڈیے الحمدللہ بہت کم ملتے ہیں ) بھی کئی مرتبہ سناہے کہ’’ فلان پیر فلاں گھرمیںعملیات کیلئے گئے تھے توخود اپنے ہاتھ کے پھینکے ہوئے تعویذات کو گھروالوں کو باور کرایاکہ تمہاری پریشانی کا سبب یہ تعویذات ہیںجس کا اب انہوں نے قلع قمع کردیاہے، بھلا ہو سوشل میڈیا کا، کہ اس کی وساطت سے بہت سے ایسے ویڈیو کلپس سامنے آتے رہتے ہیں جس میں بہت سے گورکھ دھندوں کی قلعی کھل گئی ہے۔سوال یہ اٹھتاہے کہ اگر منشیات فروشوں ، ڈکیتی او ر چوری جیسے جرائم کے انسداد کیلئے ہماری حکومتیں اگرکچھ نہ کچھ ہاتھ پائوں ماررہی ہیں تو کالے جادو کے ناسورپھیلانے ، جگہ جگہ عملیات کی دکانیں کھولنے والے پیراورعطائی ڈاکٹرز کونسے پھول کھلارہے ہیں جن سے اب تک صرف نظر کیا جارہا ہے ؟کیا ان کے ڈیروں اور پناہ گاہوں پر ہاتھ ڈال کر سادہ لوح عوام کو ان کے کرتوتوں سے نجات دلانا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے ؟ ہنستے بستے گھرانوں میں نفرتوں کے بیج بونا ،باپ بیٹے اور میاں بیوی کے بیچ نفرتیں پیدا کرنے والوں ہی کے بارے میں پیارے آقاؐ نے فرمایا تھا کہ ’’ ہلاک کردینے والے گناہوں سے اجتناب کرو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے اور سحر(جادو) سے ‘‘۔ریاست کے ساتھ ساتھ ہمارے علماء کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بارے میں لوگوں میں شعور وآگہی پیداکریں اور حتی الامکان اپنے تئیں معاشرے سے اس ناسور کا قلع قمع کرنے میں اپنا کردار اداکریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply