سمندر کے اُس سمت (رات چلتی ہے ‘ایک تاثر) -تحریر / فہیم شناس کاظمی

محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں اور جن کے لیے مخصوص ہوتے ہیں   ان کے عرفان و وجدان کے اسرار و رموز بے حد بسیط اور لامحدود ہو جاتے ہیں اگر اُن کے وجود میں شاعری کا درد  بھی گُھل جائے تو ان کی حساسیت، فکری نفاست و نزاکت، تہہ داری اور گہرائی کا تناسب عمومی تخلیقات سے بڑھ جاتا ہے۔ ان کی روح پرشاعری بارش کی ہلکی پھوار کی طرح اُترتی ہے اوراس شاعری کے خیالات، احساسا ت اور جذبات پوری شدت کے ساتھ اعلیٰ فکر اورنفاست کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اثر انگیزی اور تہہ در تہہ ابلاغ کی ہمہ جہتی سے مزیّن ہوتے ہیں۔ بھاری بھرکم تراکیب، مغلوب جذبات، پراگندہ احساسات سے تہی شاعری اعلیٰ ترین ذہنی سرگرمی کے ذیل میں آتی ہے۔ شاعری روح کو لطیف اور نفس فکر عطا کرتی ہے۔ تازگی اور روشنی دیتی ہے۔

رات چلتی ہے۔۔ تو صیف خواجہ کی ایسی ہی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں ابتدا ء تا انتہا ہر نظم نفاست فکر اور نزاکت احساس کی آئینہ دار ہے باوجود اس کے کہ اس میں ایک پوری زندگی اپنی تمام تر خوبصورتی اور تلخی، سچائی اور حقیقت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے اکثر شاعر سچائی اور حقیقت تلخی و شیرینی لکھتے ہوئے شاعری کی دوسری سمت نکل جاتے ہیں جہاں شاعری ان سے رُوٹھ جاتی ہے۔ ‘رات چلتی ہے’ کی تمام نظموں اور ان کی احساساتی اور فنی فضا میں یہ مرحلہ بخوبی طے ہوا ہے۔ سادگی، نے ندرتِ بیان کو نکھارا ہے۔ جدتِ خیال نے جمال و کمال سنوارا ہے۔ مصرعہ در مصرعہ نظم آگے بڑھتی ہے۔ نظم کے ساتھ خیال و فکر کی کائنات عدم سے نمو پذیر ہوتی ہے اور ‘‘رات چلتی ہے’’ صدیوں سے ازلوں سے ہمارے ساتھ۔۔ ہمارے قدموں، ہمارے وجود  سے لپٹی رات۔۔۔ مگر انسان اس سب کے ہوتے ازل سے ہے اور آج بھی پوری قوت اور یقین کے ساتھ موجود ہے اور آنے والے کل ۔۔ ہزاروں سال بعد آنے والے مستقبل کے باب میں پُراُمید ۔ یہی تو انسان ہے کامل انسان جو کہیں ٹھہرتا نہیں، جستجوجس کے خمیر میں ہے، اُمید اور جدوجہد جس کا اثاثہ ہے جو اپنی ناکامیوں سے کامیابی کے راستے تراشتا ہے۔ رات چلتی ہے چلتی رہے ، ہم بھی چلیں گے اُس سمت ۔

جہاں شب کے کنارے نم ملیں گے
اُسی روشن اُفق پر ہم ملیں گے
(فہیم شناس)

توصیف خواجہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘زندگی پُراسرار راستے اختیار کرتی ہے۔ جینا اور جیتے چلے جانا اس زندگی کا سب سے بڑا عمل ہے۔ لکھاری کا مقصد کائنات کے چھپے ہوئے رنگ تلاش کرنا، ان کی تفہیم اور اُن کا بیان ہے ہروہ شئے زندگی اور اس کی نمو میں رُکاوٹ بنے، جب ہے’’ (ص ۱۲، رات چلتی ہے)
دیکھیے کتنا سادہ اور سچا اعلامیہ ہے۔ اس میں کہیں فکری انتشار نہیں مگرزندگی اتنی سیدھی نہیں اس کے پیچ و خم میں ذہنی و روحانی سرگرمیاں ہیں ۔ ‘‘رات چلتی ہے’’میں یہی سادہ سے پیچ و خم تہہ داری اور بے کناری ہے جس کا پھیلاؤ ازل سے ابد تک ہے۔

‘‘راستوں پر سرمئی چھتری کُھلی
گُنگ بازاروں میں آوازوں کی بارش
اور مدھم ہو گئی
روشنی کم ہوگئی
نیکیوں کے بوجھ سے خالی
گناہ گاروں نے اپنی گٹھڑیاں
اپنے شانوں سے اُتاریں
اور زمین کی کھینچ سے باہر گرے (شام)
زمین کی کشش سے باہر اور فضا کے اندر کی دنیائیں بہت مختلف اور سحر انگیز ہے۔ تحیر اور تجسس باطنی طور پر معانی کی کئی حسرت سرائیں کھوجتا ہے اور کامل حصول کے بعد اپنی اس دریافت پر خوش ہوتا ہے :
‘‘اک ستارہ
تری سرمئی آنکھ میں
کہکشاؤں کی جھلمل میں چھپنے لگا
صبح کی روشنی کی پھوار
میرے دل پہ گری
آسمانی صحیفوں کی قرأت کی آواز آنے لگی (آرزو کا سفر)
ساحلوں پر کہیں ڈوبتی دھوپ
ان سیپیوں پر چمکتی ہے
جن پر میرا دل ۔۔ تری آنکھ سے بات کرتا ہے (آرزو کا سفر)
اسی طرح ان نظموں کے اندر چھوٹی چھوٹی مگر مکمل اور بھرپور نظمیں ہیں جو ایک نیا منظر بناتی ہیں اور گہرے بادلوں کی دُھند میں کھو جاتی ہیں۔ یہ منظر زندگی کے وہ دُکھ سُکھ وہ پُرمسرت لمحے ہیں جن میں ساری زندگی طوالت سمٹ جاتی ہے جن کی یاد میں عمر ٹھہر جاتی ہے۔ سانسوں میں اور شعور میں خوشبو اور روشنی اُتر آتی ہے۔ توصیف کہتے ہیں :
‘‘مری امی کے مسکانے سے اُجلے پھول کھلتے تھے
ہوا مجھ کو ہنساتی تھی
مگر اب مرمریں دیوار و در سے تو کوئی خوشبو نہیں آتی’’ (نظم)
یا
‘‘شام کھڑی ہے
دل کے اندر گرہ پڑی ہے
دن کے سائے
لمبی راتوں اور نکیلی باتوں میں گُم
ہم اور تم
آوازوں کی خاموشی
اورخاموشی کے شور سے گھائل
کوئی لفظ …… کوئی افسانہ (گفتگو)
یا
آخری نظم لکھ رہا ہوں میں
اپنے دل کے تمام دروازے
کھول کر روح کی گلی کی طرف
جسم کی گونجتی صداؤں میں
لفظ کی بازگشت سنتا ہوں (آخری نظم)

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تین مختلف مگر ایک وجود ایک شعور سے منسلک لمحوں کی کتھا ہے جس میں حساسیت و جذبات کی شدّت اور نزاکت اپنے پورے وفور کے ساتھ نمایاں ہے۔ یہ تین رشتے تین ادوار ہیں اور انہی میں زندگی کی پوری کہانی توصیف خواجہ نے لطیف، نفیس اور دلکش اسلوب میں پوری اُداسی اور سچائی کے ساتھ سمیٹی ہے۔ وہ دھیمے لہجے اور ہلکے رنگوں سے بہت ماہر مصور کی طرح حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر ایسی تصویر بناتے ہیں جو اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ مکمل ہیں۔ علی محمد فرشی جیسے بالغ نظر نقاد کے بعد اس پرکچھ اور کہنا تو نہیں چاہیے مگر چند باتیں جو مجھے سمجھ آئیں گوش گزار ہیں۔ اُمید ہے علمی و ادبی حلقے میں ‘‘رات چلتی ہے’’ کو پذیرائی ملے گی۔ توصیف خواجہ کے لیے بہت داد۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply